Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪51‬‬ ‫)سکت ہے‘‘ (‬ ‫انس نی ذہن‪/‬موڈ کے مط ب خ رج کے من ظر تشکیل پ تے ہیں ۔‬ ‫اگر وہ خوش ہے توبرے من ظربھی خوش آج تے ہیں ۔ اگر وہ‬ ‫غمگین ہے تو خ رج بھی‬ ‫افسردگی سے بھر ج ت ہے۔‬ ‫بہ ر‬ ‫ہ ں نش ط آمد فصل بہ ری واہ واہ‬ ‫پھر ہوا ہے ت زہ سودائے غزل خوانی مجھے‬ ‫غ ل نے بہ ر کے حوال سے نش ط ورنگ کو اج گر کی ہے۔‬ ‫موس گل کے حوال سے ہنگ م ہستی و قوع میں آت ہے اور‬ ‫قطر ۂشرا ‘دری (میخوار) کی طرف مراج ت کرت ہے‬ ‫شرح ہنگ م ہستی ہے‘ زہے !موس گل‬ ‫رہبر قطرہ ب دری ہے‘ خوش ! موج شرا‬ ‫قطرے ک دری کی طرف پھرنے ک مولان غلا رسو ل مہر نے ی‬ ‫‪:‬منظر پیش کی ہے‬ ‫انس ن مدہوش ہو ج ئے تو وہ بے خود اور آپے سے ب ہر ’’‬ ‫ہوج ت ہے۔ یوں گردوپیش کی ہر شے سے بے ت ہو کر‬ ‫اپنے مبدا کی طرف رجوع کرلیت ہے۔ قطرے ک مبدادری ‪ ،‬انس ن‬

‫‪52‬‬ ‫)ک مبد اذات ب ری ت ل ٰی ہے‪( ،،‬‬ ‫اردو ش عری میں ل ظ ’’بہ ر‘‘ کے حوال سے بہت سے من ظر‬ ‫اور انس ن کے ذہین کی مخت ف کی ی ت پیش گئی ہیں۔ مثلاا ق ئ‬ ‫‪ :‬چ ند پوری نے زندگی اور زندگی کی ہم ہمی کو پینٹ کی ہے‬ ‫اے غ فل فرصت !ی چمن م ت نظر ہے پھر فصل بہ ر آئے ن‬ ‫)موس ہو خزاں ک (ق ئ‬ ‫جہ ں دارنے نمو کے عمل کو واضع کی ہے‬ ‫خط پ اس کے تو تھی کچھ اور ہی بہ ر ہے فربنیدہ خ ل کچھ ک‬ ‫)کچھ (جہ ں دار‬ ‫خواج درد ک کہن ہے ک صبح سویرے شبن ک وجود ہوت ہے۔‬ ‫اسے انھوں نے چش تر کہ ہے کیونک اس کے ب د اس ک‬ ‫وجودن بوہو ج ت ہے۔ خواج درد نے بہ ر میں’’ہونے ۔۔ن‬ ‫ہونے‘‘کے ف س کو اج گر کی ہے۔ بہ ر ‪،‬میں صرف ’’ہون ‘‘‬ ‫قرار واق ی ٹھہرت ہے۔ بہ ر حسن کی نمو ک ن ہے۔ شبن حسن‬ ‫کو دوب لا کرتی ہے قی مت تو ی ہے ک بہ ر میں بھی وہ ن بود‬ ‫ہوج تی ہے‬‫چمن میں صبح ی کہتی تھے ہو کر چش تر شبن بہ ر ب تویوں‬ ‫) ہی رہی لیکن کدھر شبن (درد‬ ‫برس ت ہے ی برس ت وہ موس کی عج کی ہے اگر‬

‫‪53‬‬ ‫موج ہستی کو کرے فیض ہوا موج شرا‬ ‫برس ت ک موس کیف و سرورکی کی یت کو اج گر کرت ہے۔‬ ‫برس ت کی وج سے اشی ء پر نش ط ری ہوت ہے۔ غ ل نے‬ ‫برس ت کے حوال سے گردو پیش میں موجود اشی ء کو نش کی‬ ‫ح لت میں دکھ ی ہے۔ کیف آفرینی ک منظر انس نی ذہن کو ری ف‬‫فراہ کرت ہے۔ نشے ک ی ع ل اسے اپنے میں جذ کر لیت ہے۔‬ ‫خورشید‬ ‫پر تو خورسے ہے شبن کو فن کی ت ی‬ ‫میں بھی ہوں ایک عن یت کی نظر ہونے تک‬ ‫خورشید کی حدت ‘شبن کے فن ہونے ک سب بنتی ہے۔ فن کے‬ ‫لمحے اذیت ن ک سہی لیکن ایک منظر ضرور تخ ی کرتے ہیں۔‬ ‫غ ل اسے نظرعن یت ک درج دیتے ہیں ۔ خورشید کی توج ک‬ ‫مرکز بن تو سہی چ ہے اس سے موت کیوں ن آج ئے۔ ایک‬ ‫دوسری جگ پر تو خورشید کے حوال سے بڑا ہی خوبصورت‬ ‫منظر پینٹ کرتے ہیں‬ ‫کی آین خ ن ک وہ نقش تیرے ج وے نے‬ ‫کرے جو پر تو خورشید ع ل شبنمست ں ک‬ ‫محبو کے’’ آئین خ ن ‘‘میں داخل ہونے سے آئین خ نے کی‬ ‫رون بڑھ گئی ۔ محبو چونک آرائش میں ہوت ہے۔بھڑکیلا‬

‫‪54‬‬ ‫لب س زی تن کی‬ ‫ہوت ہے۔ اس کے آئین خ نے میں داخل ہوتے ہی آئینے روشن‬ ‫ہوج تے ہیں۔ا س منظر کو واضح کرنے کے لئے ایک دوسرے‬ ‫منظر کی طرف اش رہ کی ہے ۔خورشید کی روشنی سے‬ ‫شبنمست ن دمک اٹھت ہے ۔شبن کے قطرے چمکنے لگتے ہیں۔‬ ‫ی دونوں من ظر دیکھنے سے ت رکھتے ہیں۔ جس منظر کو‬ ‫غ ل واضح کرن چ ہتے ہیں اس پر ک ہی نظر گئی ہے۔ چ روں‬ ‫طرف ص ف اور ش ف آئینے آویزاں ہوں اور ایک ہی کی یت کو‬ ‫بیک وقت ظ ہر کر رہے ہوں دریں اثن محبو پوری آرائش و‬ ‫دیب ئش کے س تھ وہ ں آج ئے ۔ اداسی اور خ موشی ک سکوت‬ ‫ٹوٹ کر آئین خ نے میں ہ چل مچ ج ئے گی۔ شیشے کے ک ک‬‫لب س اور موتیوں کے زیور‘ کی قی ت ڈھ ئیں گے تصور توکریں۔‬ ‫اس منظر ک عم ی مش ہدہ انس نی حس جم ل کو بے ت کردے‬ ‫گ۔‬ ‫تبس‬ ‫بغل میں غیر کی آج آپ سوئے ہیں کہیں ور ن‬ ‫سب کی خوا میں آکر تبس ہ ئے پنہ ں ک‬ ‫محبو خوا مین ت ہے اور اس کے چہرے پر‬ ‫’’چورتبس ‘‘نمودار ہوت ہے۔ غ طی کی صورت میں‘انس ن‬ ‫کھسی نی ہسنی ہنست ہے۔ اس کی غ طی اس کے چہرے پر رق‬

‫‪55‬‬ ‫ہوتی ہے بظ ہر وہ یقین دلات ہے’ نہیں‘ ایسی کوئی ب ت نہیں‬ ‫۔لیکن چہرے ک پھیک پن س کچھ کھول کر رکھ دیت ہے۔ ع ش‬ ‫شکی مزاج‘ محبو ہرج ئی ہوت ہے اور ی تس ی شدہ حقیقت‬ ‫ہے ۔غ ل نے اسی حقیقت کو ایک منظر کی صورت میں پیش‬‫کر دی ہے۔ اس منظر ک انحص ر ل ظ‘‘تبس ‘‘ پر ہے۔ اس ل ط کے‬ ‫سہ رے اردو ش رانے بہت سے من ظر اردو ش عری میں فری‬‫کئے ہیں۔ آفت نے محبو کے تبس کے س تھ ابروچڑھ نے کی‬ ‫تصویر کشی کی ہے‬ ‫ابروچڑھ ن جس ک تبس کے س تھ ہے‬ ‫شیخ شت جنگ کو جی چ ہے دیکھیئے‬ ‫آفت‬ ‫تبس کے س تھ ابرو چڑھ نے ک عمل بڑا روم ن پرور ہے ۔ تبس‬ ‫ک ت لبو ں سے ہے۔ تبس میں وہ حرکت کرتے ہیں ۔سرخ‬ ‫لبوں کے تبس کی نقل و حرکت غنچ گل کوشرمندہ کیوں ن‬ ‫کرے گی۔ غنچ کھ تے وقت بڑا کیف آور منظر ہوت ہے۔ سرخ‬‫لبوں ک تبس ‪ ،‬غنچے سے گل بننے کے عمل سے مم ثل ضرور‬ ‫ہے لیکن انس نی تبس حسن میں اس سے بڑھ کرم نویت ک‬ ‫ح مل ہوت ہے۔ ی منظر جہ ں داد کے ہ ں کچھ یوں فوکس ہوا‬ ‫ہے۔‬ ‫اپنے ل ل ل کے دکھلا کر تبس کی بہ ر‬

‫‪56‬‬ ‫غنچ گل کے تیئں شرمندہ کرآتے ہو ت‬ ‫جہ ں دار‬ ‫میر ص ح نے تبس کے حوال سے ایک افسردہ مگر ع لمگیر‬‫سچ ئی سے وابست منظر پیش کی ہے۔ ک ی ک اثب ت ‪ ،‬تبس سے‬ ‫ک مدت ک ہوت ہے گوی وہ لمح بھر کی بہ ر کھلات ہے‬ ‫کہ میں نے‪ ،‬کتن ہے گل ک ثب ت‬ ‫ک ی نے ی سن کر تبس کی‬ ‫میر‬ ‫خواج درد ایک دوسر ہی منظر پیش کرتے ہیں۔ قبر پر‬‫کھڑاکوئی مسکرات ہے تو ن سی تی حوال سے بہت سے پہ و اس‬ ‫تبس سے وابست ہوج تے ہیں۔ زندگی میں بڑا اتراتے تھے ‪ ،‬ا‬ ‫سن ؤ‪!! ،‬وہ اکڑوہ دبدب کی ہوا؟‬ ‫ہنستے ہیں کوئی کھبو دل مردگ ں ک‬ ‫گور کے ل پر تبس کی حس‬ ‫)درد(‬ ‫تکی بن ہے تخت گل ہ ئے ی سمین بستر‬ ‫ہوا ہے دست نسرین و نسترن تکی‬

‫‪57‬‬‫ی سیمن ک بستر ہو اورنسرین و نسترن ک تکی ‪ ،‬اس پر استراحت‬ ‫کرنے والے کی نزاکت ک کی ع ل ہوگ ۔ ایسے بستر کے لئے‬ ‫ایس ہی ن زک بدن اور ن زک دم شخص ہو سکت ہے۔ پھولوں‬ ‫میں پھول کی طرح رچ بس ج ت ہو۔ غ ل نے استراحت کرنے‬ ‫والے ک اس ش ر میں کوئی حوال نہیں دی لیکن بستر ک جو‬ ‫تصور پیش کی ہے لامح ل اس پر آرا کرنے والا بھی ویس ہی‬ ‫رہ ہوگ ۔ بستر ک جو منظر س منے آت ہے ذہن کے حس س‬ ‫ت روں پر انگ ی جم ت ہے۔ ایک پرسکون ‪ ،‬پر خوشبو اور‬ ‫پھولوں ک بستر روم نی م حول س آنکھوں کے س منے لے آت‬ ‫ہے۔‬ ‫چرا‬ ‫زک ت حسن دے‪ ،‬اے ج وۂ بینش‬ ‫ک مہر آس چرا خ ن ۂدرویش ہوں‪ ،‬ک س گدائی ک‬ ‫’’‪:‬ا س کی تشریح کرتے ہوئے غلا رسول مہر لکھتے ہیں‬ ‫اے محبو ! مجھے بھی اپنے ع ل افروز حسن کی زک ٰوۃ سے‬ ‫سرفراز کرت ک میرابھیک ک ک س میرے گھر ک چرا بن کر‬ ‫اسے اسی طرح روشن کردے جس طرح سوچ کی ج وہ ریزی‬ ‫)سے ک ئن ت روشن ہوج تی ہے‘‘۔ (‬ ‫غ ل کے ہ ں محض ایک خواہش ہے۔ اس خواہش کے حوال‬

‫‪58‬‬ ‫سے ایک بڑا ش ندار منظر ترکی پ رہ ہے۔ محبو کے حضور‬ ‫ع ش ک س گدائی لئے زک ٰوۃ حسن م نگ رہ ہے۔ زک ٰوۃ شرعی‬ ‫کٹوتی سے اس سے انحراف ک ر کی صف میں کھڑا کردیت ہے۔‬‫زک ٰوۃ حسن مل ج نے کی صورت میں ک سے ک کی مق ہوگ اور‬‫اس گھر ک کی ع ل ہوگ ۔ اس منظر ک ت ک س گدائی سے ہے۔‬ ‫اس میں زک ٰوۃ حسن ڈال دی ج تی ہے تووہ سورج کی طرح‬ ‫روشن چرا ک روپ اختی ر کر سکت ہے‬ ‫سچ ئی تو ی ہے ک عش حقیقت میں ک س گدائی تو نہیں لئے‬ ‫پھرتے۔ غ ل نے چرا سے مراد آنکھیں لی ہیں۔ آنکھ ج وے‬ ‫تشکیل دیتی ہے‪ ،‬آنکھ ک چرا خ موش تھ ادھر ج محبو‬ ‫نمودار ہوا ی چرا روشن ہوگی ۔ ی روشنی جس کے انگ انگ‬‫میں مستی بھر دیتی ہے۔ محبو کو دیکھنے کے ب د جو صورت‬ ‫پیدا ہوج تی ہے دیکھنے سے علاق رکھتی ہے۔ ی مزید کی‬ ‫ہوس پیدا کردیتی ہے۔ ہوس ‘زک ٰوۃ کو بھی رواج نتی ہے۔‬ ‫ل ظ چرا کے حوال سے جہ ں دار نے ایک بڑہ عمدہ منظر‬‫تخ ی کی ہے۔ محبو ک چہرہ آنکھوں میں روشنی بھر دیت ہے‬ ‫اور روح کو ٹھنڈک فراہ کرت ہے جبک دل کو آسودگی اور‬‫فرحت میسر آتی ہے۔ سورج کی روشنی بلا شب اپنی حیثیت میں‬ ‫لاجوا سہی لیکن ج محبو اپنے پورے جم ل و کم ل سے‬ ‫س منے ہو تو کون ک فر سورج کی طرف توج کرنے ک سزاوار‬ ‫ہوگ ۔ انس نی حسن کے روبرو سورج کی چمک م ند پڑج تی ہے‬

‫‪59‬‬‫ب لکل اسی طرح جس طرح چرا سورج کے س منے ص ر ہوج ت‬ ‫ہے‬ ‫مہر اس رخ کے آگے افسردہ‬ ‫جوں چرا مزار ہووے گ‬ ‫جہ ں دار‬‫راج جسونت سنگھ پروان کے ہ ں ل ظ چرا کی مدد سے ایک‬ ‫منظر تشکیل پ ی ہے‬ ‫یوں آگ دی جگر کو میں اس دل کے دا سے‬ ‫کرتے ہیں جوں چرا کوروشن چرا سے (پروان‬ ‫ی منظر تشبی کی صورت میں پیش کی گی ہے۔ ایک چرا جل‬ ‫رہ ہے اس سے دوسرا چرا جلای ج رہ ہے۔ چراغوں سے‬ ‫چرا جلاکر ہی چراغ ں کی ج ت ہے۔ ی روشنی ں خوبصورت‬ ‫من ظر پیش کرتی ہیں ۔‬ ‫چہر ہ چہرہ انس ن کی شن خت ک ذری ہے۔ اس کی عمدہ بن وٹ‬ ‫بڑے دل گردے کے انس ن کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ لوگ اس پر‬ ‫مرمٹتے ہیں۔آفت نے بدراور چہرے ک تق ب ی مط ل پیش کی‬ ‫ہے۔ بدر ہر اگ ے روز ک ہوت ہے جبک محبو ک چہرہ اگ ے‬ ‫دن بد رہی ہوت ہے ل ٰہذا چہرے کو بدر کے مم ثل قرار نہیں دی‬ ‫ج سکت ۔‬

‫‪60‬‬ ‫اس کو ہر ش سے ’زوال‘ اس کو نہیں سے کچھ نقص بدر کو‬ ‫)چہرے سے اس کے متمثل ن کرو ( آفت‬ ‫میرص ح نے اترتے چہرے ک منظر دکھ ی ہے‬ ‫پوچھ تو میر سے کی کوئی نظر پڑا ہے‬ ‫چہرہ اتررہ ہے کچھ آج اس جواں ک‬ ‫میر(‬ ‫ان کے دیکھے سے جوآج تی ہے رون من پر‬ ‫وہ سمجھتے ہیں ک بیم ر ک ح ل اچھ ہے‬ ‫) غل (‬ ‫من کی رون ک منظر دیکھنے لائ ہوت ہے۔ اسی طرح چہرے‬ ‫کے اترنے سے جو منظر س منے آت ہے اس کی نزاکت ک دیکھ‬ ‫کر ہی احس س ہوسکت ہے۔ ی مصور پر انحص ر کرت ہے ک وہ‬ ‫چہرے کو کس انداز سے پینٹ کرت ہے۔ جیس ک ش ہ فضل ع ی‬ ‫فضل کہتے ہیں‬ ‫مصور گرتیری تصویرکو چ ہے ک ا کھینچے‬ ‫لگ دے ایک س د اچ ند چہرے کو بن نے کو( ‪ )۷‬فضل‬ ‫فرو مے سے چہرے پر جو حسن نمودار ہوت ہے اس کی‬ ‫مصوری غ ل کے سوا کون کرسکت ہے‬

‫‪61‬‬ ‫ایک نو بہ ر ن ز کو ت کے ہے پھر نگ ہ‬ ‫چہرہ فرو مے سے گ ست ں کیے ہوئے‬ ‫خرا وہ بھ گ رہ ہے۔ وہ ج رہ ہے۔ وہ چلاآرہ ہے۔ وغیرہ‬ ‫ایسے جم وں سے کوئی ن کوئی منظر ضرور تخ ی ہوت ہے‬ ‫لیکن ان کی طرف خصوصی توج مبذول نہیں ہوتی لیکن ج ی‬ ‫کہ ج ت ہے ۔حسین ع ل خرام ں خرام ں چ ی ج رہی ہے تو‬ ‫خصوصی توج بن ج تی ہے۔ اسی طرح ج ی کہ ج ئے س قی‬ ‫نے ب نٹ شروع کر دی ہے تو میخواروں کے چہرے دمک‬ ‫اٹھتے ہیں ت ہ تقس ک ی منظر ب لکل ع س ہے لیکن ج ی‬ ‫کہ ج ئے ’’لطف خرا س قی و ذو صدائے چنگ‘‘دیکھنے‬ ‫سننے والا بے س خت بول اٹھے گ ’’ی جنت نگ ہ وہ فردوس‬ ‫گوش ہے‘‘س قی کی خوش خرامی اوپر سے چنگ کی سری ی‬ ‫آواز ‪ ،‬میخواروں پر بن پئے نش ط ری ہوج ئیگ ۔ غلا رسول‬ ‫‪:‬مہر نے ا س منظر کو ان ال ظ میں بی ن کی ہے‬‫س قی کی خوشی خرامی ایس پر لطف نظ رہ پیش کررہی تھی ’’‬ ‫گوی نگ ہ کے لئے جنت ک منظر پیداہوگی تھ‬ ‫اور س رنگی کی سری ی آوازمیں اتنی لذت تھی گوی ک نوں کے‬ ‫)لئے فرودس آراست ہوگی تھ ‘‘(‬‫خرا ‘‘ کے حوال سے ی منظر س منے آت ہے اوپر سے بی ن ’’‬ ‫غ ل ‘ سونے پر سہ گے والی ب ت ہے۔‬

‫‪62‬‬ ‫خندہ ب بل کے ک روب ر پ ہیں خندہ ہ ئے گل کہتے ہیں جس کو‬ ‫عش ‪،‬خ ل ہے دم ک‬ ‫خندہ‘ ہنسی اور شوخی کے لئے بولا ج ت ہے۔ کھ تے غنچے‬‫میں ی دونوں عن صر پ ئے ج تے ہیں۔ کھ نے ک منظر غ ل نے‬ ‫ہنسی‪ ،‬شوخی اور مذا سے مم ثل قرار دی ہے۔ پھولوں کی‬‫شوخی ک منظر خوبصورت ہوت ہے اور حس جم لی ت کو تسکین‬ ‫اور آسودگی فراہ کرت ہے۔ جوانی شوخی ہوتی ہے۔ اس میں‬ ‫مستی ہوتی ہے۔ پھولوں کی اداؤں سے رغبت رکھنے والے‬ ‫اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ ب بل اداشن س ہوت ہے۔ منظر ی‬ ‫بنت ہے ک ب بل آہ و زاری کررہ ہے اس کی آہ وزاری کو دم‬‫ک خ ل سمجھ کر ‘پھول اس ک مذا اڑارہے ہیں ۔پھول ج اپنے‬ ‫جو بن پر ہوتے ہیں وہ کسی کی آہ وزاری سے مط نہیں‬ ‫رکھتے ۔ ن سی تی نقط نظر سے دیکھیں‘ اگر وہ ب بل کی آہ‬ ‫وزاری پر نظر رکھیں تو ان کی شوخی ‪،‬اداسی میں تبدیل‬ ‫ہوج ئے گی۔ دیوانے اور مجنوں پر ہنس ج ت ہے۔ اس کے جذب‬ ‫شو پر توج نہیں دی ج تی۔ توج ن دینے کے ب عث جوانی‬ ‫اور شوخی برقرار رہ سکتی ہے ؟ دوسرای ن لے‪ ،‬آہ و زاری‬ ‫جوانی ہی ک نتیج ہیں ۔مرجھ ئے پثر مردہ چہروں کوکون پسند‬‫کرت ہے۔ تیسرا نقط ی ک م حول کی آسودگی ‪ ،‬خوشی ک سم ں‬ ‫‘سہ ن سم ں شوخی کی برقراری تک ب قی رہت ہے۔ چوتھی ب ت‬ ‫ی ک ب بل کے پ گل پن کے سب خندہ ہ ئے گل دیکھنے کو مل‬

‫‪63‬‬ ‫سکت ہے۔‬ ‫روئے‬ ‫آ سبزے کو ج کہیں جگ ن م ی‬ ‫بن گی روئے آ پرک ئی‬ ‫سطح آ پر اگی ہوئی ک ئی کو اس ش ر میں توج ک مرکز بن ی‬ ‫گی ہے۔ سطح آ کو چہرے کے مم ثل قرار دی گی ہے۔‬ ‫خوبصورت چہرہ توج ک مرکز بنت ہے ۔ پ نی کی سطح پراگی‬ ‫ہری لی پر حظ کے لیے ک ہی توج دی ج تی ہے ت ہ پ نی کی‬ ‫سطح پراگی ہوئی ہری لی اپن حسن رکھتی ہے اور دیکھنے سے‬ ‫علاق رکھتی ہے۔ ہری لی ک ی منظر پ نی کی ک رگراری ک پت‬ ‫دیتی ہے۔ اس غزل ک دوسرا ش ر منس ک کردی ج ئے تو لطف‬ ‫میں اض ف ہو ج ئے گ اور منظر کے دوسرے گوشے بھی‬ ‫س منے آج ئیں گے‬ ‫سبزہ و گل کو دیکھنے کے لئے‬ ‫چش نرگس کو دی ہے بین ئی‬ ‫نرگس ک اپن حسن محت ج بی ن نہیں ‪ ،‬اوپر سے ملاخط کرنے‬ ‫ک شو اس کے ذو جم ل کو واضح کرت ہے۔ پ نی پر سبزہ‬‫اگ ہوا ہے جو آنکھوں کو تراوت بخش رہ ہے۔ نرگس ہری لی کے‬ ‫اس دل ری منظر کو نظر انداز کیونکر کر سکتی ہے۔ گوی جہ ں‬

‫‪64‬‬ ‫سبزہ اپن حسن رکھت ہے وہ ں نرگس کے لئے بھی توج ک‬ ‫ب عث ہے۔ نرگس کی آنکھوں میں اس حوال سے قی مت اتر ئی‬ ‫ہوگی۔‬ ‫پ نی ک ی قی مت خیز چہرہ شخص کو کیونکر مت ثر نہیں کرے‬ ‫گ ۔ زیر آ کچھ تو ایس ہے جو نکھر کر ب ہر آرہ ہے۔ سبزے‬ ‫نے پ نی کے چہرے کو حسن عط کی ہے اور سبزے کو زندگی‬ ‫کی آنکھ متواتر ت کے چ ی ج رہی ہے ۔ اصل میں مت ثر کرنے ک‬ ‫س را کریڈٹ چہرے (روئے آ ) کو ج ت ہے۔‬ ‫زلف زلف عش کے لئے ہمیش م تبر اور توج ک مرکز رہی‬‫ہے۔ ہر کسی نے اس میں ٹھک ن بن نے کی سوچی ہے ۔ اردوکے‬ ‫ہر ش عر نے زلف کو موضوع کلا بن ی ہے۔ جہ ں دار نے زلف‬ ‫کے ہر خ کو دا ک ن دی ہے‬ ‫اے جہ ں دار ہوں میں صید اسیر ہر خ زلف دا ہے میرا‬ ‫)جہ ں دار(‬ ‫جہ ں دار کے والد‘ بیٹے سے دو قد آگے نظرآتے ہیں۔ ان کے‬ ‫ہ ں’’زلف سی ک لٹک ‘‘ دیکھنے سے ت رکھت ہے‬ ‫افسوں نہو موثرکوئی آفت اس کو‬ ‫دیکھ ہے جس نے اس زلف سی ک لٹک‬ ‫)آفت (‬

‫‪65‬‬ ‫خواج درد ک دل بھی زلف سے بچ کر نہیں نکل سک‬ ‫زلف میں دل کو تو الجھ تے ہو‬ ‫پھر اسے آپ ہی س جھ تے ہو‬ ‫) درد(‬ ‫ق ئ چ ندپوری زلف کی صیدافگنی سے گھبرائے ہیں‬ ‫گوشو مئی ط لع سے ف ک ‪ ،‬قید ہو‬ ‫پر زلف کی پیچش تو ن ہو دا کسی ک‬ ‫قئ (‬ ‫غ ل پیچھے رہنے والے کہ ں ۔ کم ل ک ذو پ ی ہے‪ ،‬فرم تے‬ ‫ہیں‬ ‫م نگے ہے پھر کسی کو ل ب پر ہوس‬ ‫زلف سی ہ رخ پر پریش ں کئے ہوئے‬‫ا اس منظر ک تصور کریں جذب ت میں آگ لگ ج ئے گی۔ کوئی‬ ‫حسین ج ب پر‘ رخ پر زلف سی ہ پریش ں کئے موجود ہو ۔کون‬ ‫ک فر اس نظ ر ے کی ت لاسکے گ ۔ غ ل نے زلف(سی ہ) کے‬ ‫حوال سے بڑا لطیف ‘روم ن پر ور اور جذب ت میں آگ بھر‬ ‫دینے والا منظر تخ ی کی ہے۔ غ ل نے زلف کے حوال سے‬ ‫اور بھی تصویریں بن ئی ہیں لیکن اس تصویر ک جوا (ش ہد)‬

‫‪66‬‬ ‫ان کے اپنے دیوان میں بھی موجود نہیں۔‬ ‫س ی گرمیوں میں س ئے کی اپنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ ی سکون‬ ‫فراہ کرت ہے۔ اس ل ظ ک اردو ش عری میں مخت ف حوالوں سے‬ ‫است م ل م ت ہے۔ آفت نے س ئے کو مہرب نی اور عن یت کے‬ ‫م نوں میں است م ل کی ہے‬ ‫س ی خدا ک سر پے ترے‪ ،‬آفت‬ ‫س رے جہ ں میں کوئی عدوا رہ نہیں‬ ‫) آفت (‬ ‫خواج درد نے س ی کے حوال سے بڑا عمدہ منظر نظ کی ہے‬ ‫کھینچے ہے دور آپ کو میری فردتنی افت دہ ہوں پ س ی قد‬ ‫) کشیدہ ہوں (درد‬ ‫ق ئ کے ہ ں بھی بڑے کم ل ک خی ل ق بندہوا ہے‬ ‫ہوتے ترے مح ل ہے ہ درمی ں ن ہوں‬ ‫ج تک وجود شخص ہے س ی ن ج ئے گ‬ ‫) قئ (‬ ‫غ ل ک کہن ہے ۔انگور کی بیل کے نیچے بیٹھے ہوں۔ ہوا کے‬ ‫چ نے سے‘ اس کی ٹہنی ں حرکت میں ہوں۔ انگور سے شرا‬ ‫کشید ہوتی ہے‘ غ ل نے اسی من سبت سے بیل سے نیچے کی‬

‫‪67‬‬ ‫ہوا میں نش کی موجودگی ک احس س دلای ہے۔‬ ‫پوچھ مت وج سی مستی ارب چمن‬ ‫س ی ت ک میں ہوتی ہے ہوا موج شرا‬‫سبزہ ہری لی بھ ی لگنے والی چیز ہے۔ ی آنکھوں کو ٹھنڈک اور‬ ‫تراوت بخشتی ہے۔ سبزہ اپنے حسن کے حوال سے بے‬ ‫حدم صومیت ک ح مل ہوت ہے۔ اس سے نمو کے اسرار کھ تے‬ ‫ہیں۔ اردو ش عری میں ل ظ سبزہ ہمیش ب م نی رہ ہے اور اس‬‫کے حوال سے بہت سے من ظر ترکی پ ئے ہیں۔ میر نے سبزے‬ ‫کی اہمیت کو اج گر کی ہے‬ ‫پ ئم ل صدج ن ح ن ہواے عندلی‬ ‫سبزۂ بیگ ن بھی تھ اس چمن ک آشن‬ ‫) میر(‬ ‫خواج درد کے ہ ں سبزے کو ایک دوسرا حوال میسر آی ہے‬ ‫ہ گ شن دوراں میں اے خ تگ ئط لع سرسبز تو ہیں لیکن جوں‬ ‫) سبزۂ خوابیدہ (درد‬ ‫غ ل نے ل ظ سبزہ کے حوال سے ایک ج ندار منظر تخ ی‬ ‫کی ہے‬ ‫ایک ع ل پ ہیں طوف نی کی یت فصل‬

‫‪68‬‬ ‫موج سبزہ ئنوخیزسے ت موج شرا‬ ‫سبزۂ نوخیز‘‘ پر غور کریں غ ل ک ذو جم لی ت کھل کر ’’‬ ‫س منے آج ت ہے۔ اس منظر کے حوال سے غلا رسول مہر‬ ‫‪ :‬فرم تے ہیں‬ ‫نئے اگے ہوئے سبزے کو موج سے شرا تک‪ ،‬ہر موج نے ’’‬ ‫برس ت کے موس کی کی یت ک ایس طوف ن بپ کردی ہے‬ ‫جو دین کے ہر حصے پر چھ ی ہوا نظر آی ہے ی نی برس ت ہو‬ ‫)رہی ہے ہر طرف سبزہ لہریں لے رہ ہے‘‘(‬ ‫شرر شرر‘ع س ل ظ ہے اور ش را نے اس ک بکثرت است م ل‬ ‫کی ہے مثلا خواج درد کے ہ ں اس ک است م ل ملاحظ ہو‬ ‫کرئے ہے کچھ سے کچھ ت ثیر صحبت ص ف طب وں کی‬ ‫ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رشک شرر شبن‬ ‫درد‬ ‫خواج ص ح ک ی تشبیہی است م ل لطف دیت ہے لیکن غ ل‬‫کے ہ ں اس ک است م ل کم ل کی ش ن رکھت ہے۔ شرر اپنی بس ت‬‫میں تہی سہی لیکن جو اور جتنی بھی اس کی حیثیت ہے اس کی‬ ‫پیشکش دیکھنے کے ق بل ہوتی ہے۔ چنگ ری ک آگ کے ش وں‬ ‫سے جدا ہون اور پھر تھوڑی سی پرواز کے ب دبھس ہوج ن‬ ‫م مولی منظر نہیں۔ ی منظر لمح بھر ک سہی لیکن اپنے اندر‬

‫‪69‬‬ ‫م نویت ک سمندر رکھت ہے۔ غ ل اس پرواز کو ’’رقص‘‘ک ن‬ ‫دیتے ہیں۔ اگر چنگ ری ں یکے ب د دیگرے اڑتی رہیں‘ایک‬ ‫مس سل منظر بن ج ئے گ ۔ایک شرر کے اڑنے سے الگ سے‬ ‫م نویت ک ح مل منظرس منے آت ہے۔ شرر آگ سے جدا ہوت‬ ‫ہے۔مبداء سے الگ ہونے کی سزا موت سے ک نہیں۔ آگ سے‬ ‫جدا ہونے اور فن تک ک س ر کرنے ک ی منظر ع ل کے ہ ں‬ ‫ملاحظ ہو‬ ‫یک نظربیش نہیں فرصت ہستی غ فل‬ ‫گرمی بز ہے اک رقص شررہونے تک‬ ‫شمع ل ظ ’’شمع‘‘ ک ا’ردو میں ع است م ل ہوا ہے۔ غ ل نے‬ ‫اس ل ظ کی مدد سے بڑا ش ندار منظرتخ ی کی ہے۔ شمع ج‬ ‫ج تی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھت ہے۔ اس دھویں کو حوال‬‫بن تے ہوئے انس نی جذبے کی بڑی عمدگی سے ترجم نی کی گی‬ ‫ہے‬ ‫شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھت ہے ش عش‬ ‫سی پوش ہوا میرے ب د‬ ‫‪:‬غلا رسول مہر نے اس منظر کی یوں تشریح کی ہے‬ ‫ج شمع بجھتی ہے تو اس کے رشتے سے دھویں کی ’’‬ ‫لہراٹھتی ہے ۔ اس سے ش عر نے نیتج نک لا ک شمع کے‬

‫‪70‬‬ ‫بجھنے پر اس کے ش ے نے سی ہ م تمی لب س پہن‬ ‫)لی ہے۔۔’’(‬ ‫آفت نے شمع کو بطور دلیل فن است م ل کی ہے‬ ‫جوں صبحگ ہی ‪ ،‬کوئی د کو مہم ن ہے‬ ‫پی ر سے شت بی خبر لے اپنے نی ج ن کی‬ ‫آفت (‬ ‫درد نے شمع کے حوال سے محبت کے نورانی چہرے کو نم ی‬ ‫ں کی ہے‬ ‫رات مج س میں ترے حسن کے ش ے کے حضور‬ ‫شمع کے من پر جو دیکھ تو کہیں نور ن تھ‬ ‫) درد(‬ ‫ق ئ نے شمع کو مردانگی ک پیم ن اور علامت کے طور پر‬ ‫است م ل کی ہے‬ ‫مثل پروان نث ر اس کے قد پر ہو جے‬ ‫طرح سے شمع کی مردان جوسر سے گزرا‬ ‫) قئ (‬ ‫شبن شبن ٹھنڈک ک وسی ہے۔ پھول کے بدن پر اس ک پڑاؤ‬

‫‪71‬‬ ‫قی مت خیز ہوت ہے۔ ولی اللہ مح نے شبن کو بطور مشب ب‬ ‫برت ہے۔ انھوں نے بڑا عمدہ منظر تخ ی کی ہے‬ ‫ع رض اس کے اس طرح ہیں عر سے بھیگے ہوئے جس‬ ‫) طرح شبن سے ہوں گ بر گ تر بھیگے ہوئے(مح‬ ‫ع رض اور گ برگ کی تری یقین امش ہدے کی چیز ہے ۔غ ل نے‬‫شبن ک تشبیہی است م ل کی ہے۔ شبن کے حوال سے انھوں نے‬ ‫بڑا عمدہ منظر پینٹ کی ہے‬ ‫کی آئین خ نے ک وہ نقش ترے ج وے نے‬ ‫کرے جوپر تو خورشید ع ل شبمنست ن ک‬ ‫طوف ن ل ط طوف ن ‘ہلا دینے والا ل ظ ہے ۔غ ل نے اسے کثیر‬ ‫م نوں میں است م ل کی ہے۔ ت ہ اس ل ظ کے تو سط سے بڑے‬ ‫کم ل ک منظر پیش کرتے ہیں‬ ‫فرش سے ت عرش واں طوف ن تھ موج رنگ ک‬ ‫ی ں زمیں میں سے آسم ں تک سوختن ک ب تھ‬‫عیش و نش ط کے ہنگ م کو اس سے بہتر طور پر ش ید ہی پیش‬ ‫کی ج سکت ہو۔ ج گردش میں ہیں۔ س زکی دھنیں شرا کے‬ ‫نش کو دوب لا کررہی ہیں۔ بدن تھرک رہے ہیں‘ سرگوشی ں ہیں‬ ‫‘عن یت کے درواہیں اورہر کوئی فیض ی ہورہ ہے وغیرہ‬ ‫وغیرہ۔ اس منظر کو ذہن میں لائیں مستی سی محسوس ہوگی۔‬

‫‪72‬‬ ‫غ ل نے ا س منظر کے س تھ ایک افسردگی ک منظر بھی نتھی‬‫کر دی ہے۔ ع ش حقیقی اس عیش سے محرو ہے اس کے ہ ں‬ ‫م تمی کی یت ط ری ہے۔ محرومی پر جو ح لت ہوتی ہے‘ اس ک‬ ‫تصور بھی ک یج ک ٹ دیت ہے۔‬ ‫عر ی ل ظ اردو غزل میں مخت ف حوالوں اور م ہی میں‬ ‫است م ل ہوت رہ ہے۔ آفت نے اسے پسینے کے م نوں میں‬ ‫است م ل کی ہے‬ ‫وہ گ بدن جبیں سے جہ ں ہو عر فش ں‬ ‫اسی ج میں گل شگ ت لال ہزارہ ہو‬ ‫) آفت (‬ ‫فض ی نے تشبیی است م ل کی ہے‬ ‫عر من پ جیوں آر سی میں حب‬ ‫تبس لب ں پر جوں موج‬ ‫)شرا (‬ ‫) فض ی(‬ ‫غ ل نے اس ل ظ کے توسط سے بڑا ج ندار منظر پیش کی ہے‬ ‫بدگم نی نے ن چ ہ اسے سرگر خرا‬

‫‪73‬‬ ‫رخ ی قطرۂ عر دیدۂ حیراں سمجھ‬ ‫غنچ ل ظ غنچ م صومیت کو اج گر کرت ہے۔ اس ل ظ کے حوال‬ ‫سے اردو غزل میں بڑے ہی عمدہ من ظر تخ ی پ ئے ہیں۔ آفت‬ ‫نے ن زنین کے من سے نک ے کو ‘غنچے کے مم ثل قرار دی‬ ‫ہے۔ اس حوال سے ن زنین کے ہونٹوں کی حرکت پر نظر ج تی‬ ‫ہے تو دوسری طرف غنچے کے چٹخنے ک منظر آنکھوں کے‬ ‫س منے گھو ج ت ہے‬ ‫اس ن ز نیں دہن سے حرف اس ادا سے نکلا‬ ‫گوی ک غنچ گل صحن چمن میں چٹک‬ ‫آفت‬ ‫غنچے ج چٹکنے لگتے ہیں تو ان کے وجودکی نمی ب ہر‬ ‫آج تی ہے جہ ں دار کچھ اسی قس کی ب ت کہ رہ ہے۔‬ ‫ج وہ رشک م ہ چمن میں ج کرمسکرا ی‬ ‫تو غنچوں کے من میں پ نی حسرت سیتی بھرآی‬ ‫)جہ ں دار(‬ ‫خواج درد نے م م ے کو ایک دوسراہی رنگ دی ہے‬ ‫دل کے پھر زخ ت زہ ہوتے ہیں‬

‫‪74‬‬ ‫کہیں غنچ کوئی کھلا ہوگ‬ ‫) درد(‬‫غ ل نے تشبیی انداز میں غنچ کے حوال سے زندگی سے میل‬ ‫کھ ت بڑا عمدہ منظر تشکیل دی ہے‬ ‫غنچ ن شگ ت کو دور سے مت دکھ کر یوں‬ ‫بو سے کو پوچھت ہوں میں‘من سے مجھے بت ک یوں‬‫ک غذ خواج دردنے ل ظ ک غذ کے حوال سے ن صرف بڑا عمدہ‬‫مضمون نک لا ہے ب ک ایک خوبصورت منظر بھی تخ ی کی ہے‬ ‫بس ن ک غذ آتش زدہ مرے گ رو‬ ‫ترے ج ے بھنے اور ہی بہ ر رکھتے ہیں‬ ‫) درد(‬ ‫غ ل نے بھی ک غذ آتش زدہ سے بڑا عمدہ منظر تشکیل دی‬ ‫ہے‬ ‫یک ق ک غذ آتش زدہ سے ص ح دشت‬ ‫نقش پ میں تپ گرمی رفت ر ہنوز‬ ‫لال و گل لال و گل کے حوال سے اردو غزل میں بڑے ش ندار‬ ‫من ظر ترکی پ ئے ہیں۔بطور نمون چند من ظر ملا حظ ہوں‬

‫‪75‬‬ ‫دامن دشت سے پر لال و گل سے ی ر‬ ‫خوف ع ش بھی کہیں ہو وے بہ ر دامن‬ ‫) درد(‬ ‫لال و گل کی نمو میں ع ش کے لہو کی تو قع یقین اخوبصورت‬ ‫خی ل ہے۔ لال و گل کی نموع ش کے لہو ک نتیج ہے ی ع ش‬ ‫ک لہو لال وگل کی شکل اختی ر کر گی ۔ دونوں طرح سے ی‬ ‫است م ل اچھ م و ہوت ہے ۔ جہ ں دار ک کہن ہے ک ب میں‬ ‫سے کوئی مے کش ہر ش خ گل کے ہ تھ میں مل ک پی ل دے گی‬ ‫ہے ۔بڑا لاجوا خی ل ہے‬ ‫کون مے کش اے جہ ں دار گزرا ب میں ہ تھ میں ہر ش خ گل‬ ‫)کے مل ک پی ل دے گی (جہ ں دار‬ ‫مے کش ‪ ،‬ب ‪ ،‬ش خ گل اور مل ک پی ل ایسے ال ظ ہیں جو‬ ‫کیف مستی سمٹے ہوئے ہیں۔ میر ص ح ک ایک ش ر ہے‬ ‫‘ ن ہوکیوں غیرت گ زار وہ کوچ‬ ‫خدا ج نے لہواس خ ک پر کن کن عزیزوں ک گرا ہو گ‬ ‫) میر(‬ ‫غ ل نے بھی یہی منظر تخ ی کی ہے لیکن ب ت ک ڈھنگ اور‬ ‫ہے‬

‫‪76‬‬ ‫س کہ ں کچھ لال و گل میں نم ی ں ہوگئیں خ ک میں کی‬ ‫صورتیں ہوں گی ک پنہ ں ہوگئیں‬ ‫ش ر کی بس ت لال و گل پر استوار ہے۔ ب کے پھول اچھے‬ ‫لگتے ہیں لیکن ش ر کی قر ت کے ب د ان سے محبت و انس ک‬ ‫ت س پیدا ہوج ت ہے۔ غلا رسو ل مہر نے ح شرح ادا کردی‬ ‫‪:‬ہے‬‫خداج نے زمین میں کیسی کیسی صورتیں ج چکی ہیں جھنوں ’’‬ ‫)نے ظہور ت زہ کے لئے لال و گل کی شکل اختی ر کی‘‘۔(‬ ‫غ ل نے گورست ن کوگ ست ن میں تبدیل کر دی ہے غ ل نے‬ ‫رعن ئی کو واضح کی ہے جبک میر نے رعن ئی کے حوال سے‬ ‫’’کن کن عزیزوں ‘‘ کو عی ں کی ہے۔ میر ص ح نے مخصوص‬ ‫کوچے سے خی ل کو وابست کی ہے۔‬ ‫موج اس ل ظ کی مدد سے غ ل نے کئی منظر تخ ی کئے‬ ‫ہیں۔پہ ے ش ر ملاخط کریں پھر من ظر سے حظ لیں‬ ‫چ روں‬ ‫موج اٹھتی ہے طوف ن طر سے ہرسو‬ ‫موج گل‪ ،‬موج ش ‪ ،‬موج صب ‪ ،‬موج شرا‬ ‫طر ک تصور کریں‪ ،‬چ روں موجیں اس سے وابست نظر آئیں‬ ‫گی۔ اس غزل ک مقطع دیکھیں‬

‫‪77‬‬ ‫ہوش اڑتے ہیں مرے ج وۂ گل دیکھ اسد‬ ‫پھر ہوا وقت ک ہوا کش موج شرا‬ ‫ی نی ’’پھولوں کے ع ج وے نے ی د دلادی ک شرا ک دور‬‫چ ن چ ہیے ‘‘( ) پھولوں سے حظ لینے والے ی پھولوں سے‬ ‫رغبت رکھنے والے ہی پھ وں کے ج وے سے لطف اندوز‬ ‫ہوسکتے ہیں۔پھولوں کی رعن ئی و دلرب ئی انس نی ن سی ت پر‬ ‫اثر انداز ہو کر اسے لطیف و ن یس اور پریکٹیکل بن دیتی ہے۔‬‫بہر طور حسن‪ ،‬انس ن کی حس جم لی ت کو تسکین فراہ کرت ہے‬ ‫۔‬ ‫ق ئ چ ندپوری نے ل ظ موج بطورمشب ب است م ل کر کے موت‬ ‫و حی ت کے ف س ے کو اج گر کی ہے‬ ‫موج دری سے مم ثل ہے جہ ں ک احوال‬ ‫پھر ن دیکھ میں اسے ی ں جو نظر سے گزرا‬ ‫خواج درد ک کہن ہے موج نسی ‪ ،‬زنجیر بوئے گل کے مترادف‬ ‫ہے‬ ‫موج نسی گو ہے زنجیر بوئے گل کی‬ ‫دامن ن چھوڑ سکے پر از رمید گ ں ک‬ ‫مہر مہر اپنی ذات میں ہر حوال سے واضح ہوت ہے۔ کوئی بھی‬

‫‪78‬‬ ‫واضح شے کے لئے پردہ داری کی ح جت نہیں ہوتی اور ن ہی‬ ‫اسے پردوں میں رکھن ہوت ہے۔غ ل نے مہرنی روز ک بطور‬ ‫شب ب است م ل کی ہے اور اس کے توسط سے محبو کے‬ ‫حسن اور چہرے کے جلال کی مصوری کی ہے ۔‬ ‫ج وہ جم ل دل روز صورت مہر نی روز‬ ‫آپ ہی ہو نظ رہ سوز پردے میں من چھپ ئے کیوں‬ ‫‪:‬خواج ح لی کے نزدیک ی ش ر‬ ‫)حقیقت و مج ز دونوں پر محمول ہوسکت ہے‘‘ ( ’’‬ ‫‪:‬غلا رسول مہر ک کہن ہے‬ ‫حقیقت پر بدر جہ ں زی دہ ‘ کیونک وجود حقیقی ک ئن ت میں ’’‬ ‫نم ی ں اور آشک ر بھی ہے۔ پنہ ں و مستور بھی ۔‬ ‫ب ایں ہم کوئی اس کے جم ل سے براہ راست بہرہ اندوز نہیں‬ ‫)ہوسکت ‘‘(‬ ‫‪:‬مہرنی روز کے توسط سے تین من ظر س منے آتے ہیں‬‫۔ محبو کے چہرے پر اتن جلال ہے ک اس کی طرف نظر پھر‬ ‫کر دیکھ نہیں ج سکت جبک دیکھینے کی ہوس کبھی اور کسی‬‫ح لت میں د نہیں توڑتی ۔ نظ رہ تو موجود ہے ‘ دعوت ع بھی‬ ‫ہے دیکھو‘ اگر دیکھ سکتے ہو۔‬









































‫‪99‬‬ ‫پھ ن پھولن ‪،‬پنپن ‪ ،‬سک رہن‬ ‫اس قدر افسردہ دل کیوں ان دنوں ہے آفت‬ ‫دیکھ کر ہوت ہے تجھ کو تنگ ‪ ،‬دل گ زار ک ( ) آفت‬ ‫مح ل ‪ ،‬انجمن ‪ ،‬دنی ‪ ،‬احب ‪ ،‬قدردان‬ ‫زم نے ک عمومی چ ن ہے ک وہ سکھ میں س تھ دیت ہے۔ دکھ‬ ‫اور افسردگی میں دل تنگ کرت ہے ۔پھول اور پھولدار پودے‬‫خوشگوار موڈ پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں ان کے پھ نے پھولنے‬ ‫ک راز مخ ی ہوت ہے۔‬ ‫‪:‬غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ملاحظ ہو‬ ‫س ئے کی طرح س تھ پھر یں سرو و صنوبر تواس قد دلکش‬ ‫سے جو گ زار میں آوے‬ ‫سرو وصنوبر سے واضح ہورہ ہے ک گ زار سے پھولوں‬‫ک خط ء اراضی مراد ہے۔گ زار میں (شخصی )ب ند ق متی م تبر و‬ ‫‪:‬م زز ٹھہراتی ہے۔ غلا رسول مہر لکھتے ہیں‬‫محض ب ندی ق مت کوئی خوبی نہیں ‪ ،‬قداتن ہی ب ند ہون چ ہئے ’’‬ ‫جتن ک موازنیت کے ب عث دل کو لبھ ئے ‪،‬‬ ‫)نری ب ند ق متی ب ض اوق ت ن زیب بن ج تی ہے ۔ (‬ ‫چمن‪ :‬ی ل ظ بھی ’’ب ‘‘ گروپ سے مت ہے۔ اردو ش عری‬

‫‪100‬‬ ‫‪:‬میں اس ل ظ ک بڑا ع است م ل م ت ہے‬ ‫اس ن زنین دہن سے حرف اس ادا سے نکلا گوی ک غنچ ء گل‬ ‫صحن چمن میں چٹک‬‫خوبصورت ادائیگی صحن چمن میں غنچ ء گل کے چٹکنے سے‬ ‫کسی طرح ک نہیں ۔ لہج اعتم د بح ل کرت ہے ۔غ ط لہج‬ ‫جھگڑے ک سب بن سکت ہے ۔ بے مزگی کی صورت نکل‬ ‫سکتی ہے ۔ کرخت اور کھردرا انداز تک بے وق ر کرکے رکھ‬ ‫دیت ہے ۔ غنچے ک چٹکن اپنے دامن میں بے پن ہ حسن رکھت‬ ‫ہے ۔‬ ‫کسی ’’ آنگن ‘‘ میں جوانی ‪ ،‬زندگی کے ذائقے ہی بدل کر رکھ‬ ‫‪ :‬دیتی ہے‬ ‫مرغ ن چمن کے چہچہے ہیں اور کبک دری کے قہقہے ہیں‬ ‫( ) مجروح‬ ‫مرغ ن چمن کے چہچہوں ک جواز۔ ۔ہری لی ۔ ۔ پھول ۔ ۔ پھل‬ ‫ہیں ۔ مجروح نے چمن کو ب کے م نوں میں اندراج کی ہے۔‬ ‫‪:‬ا غ ل کے ہ ں اس ل ظ کی ک رفرم ئی ملاحظ ہو‬ ‫لط فت بے کث فت ج وہ پیدا کرنہیں سکتی چمن زنگ ر آئین ب د‬ ‫بہ ری ک‬ ‫چمن‪:‬گ بن و اشج ر و برگ و ب ر( ) اظہ ر لط فت(‪) ۷‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook