Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪251‬‬ ‫واحترا کی نگ ہ سے دیکھ ج ت رہ ہے۔ ی ل ظ ایک ہمدرد اور‬ ‫ت ون کرنے والا کر دار س منے لات ہے ۔ اس سے ملاق ت کرتے‬ ‫وقت اچھ لگت ہے۔بس اوق ت ی کردار در پردہ ی پھراپنی کسی‬ ‫ن دانی کے سب م م بگ ؤ بھی دیت ہے اور اس سے دشمن‬ ‫سے زی دہ نقص ن پہنچ ج ت ہے ۔ غمخوار کے حوال سے‬ ‫م م ے کی تشہیر بھی ہوج تی ہے ۔ غمخوا ر خودہی ‪،‬‬ ‫غمخواری کی آڑ میں گھ ئل کر دیت ہے اور گھ ئل کو م و بھی‬ ‫نہیں ہوپ ت ک اس کے س تھ کی ہوگی ہے۔‬ ‫اردو غزل میں ی کردار مخت ف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔ اس‬ ‫سے م تے وقت کسی قس کی اجنبیت ک احس س نہیں ہوت ۔‬‫غمخوار ک متب دل ‪ /‬مترادف غمگس ر بھی اردو غزل میں پڑھنے‬‫کوم ت ہے ۔ غمگس ر ک کردار بھی ہمدرد اور مونس و ش ی کے‬ ‫طور پر نمودار ہوت ہے۔‬ ‫ص ح را فری د غمگس ر کو غ ب نٹنے والا کے م نوں میں‬ ‫است م ل کرتے ہیں‬ ‫غ جسے ہواہے ی ردل ک کوئی نہیں غمگس ر دل ک ( )‬ ‫فری د‬ ‫آخوند ق س س ؤئی ہ لائی نے غ غ ط کرنے والے کو غمگس ر‬ ‫ک ن دی ہے‬ ‫مدا پل پل دو بھر بھر دلاارے س قی ک ہے عجی مرای‬

‫‪252‬‬ ‫رغمگس ر قدح( ) ہ لائی‬ ‫شیخ عثم ن بے کسوں اور بے بسوں کے ک آنے والے کو‬ ‫غمخوار کے لق سے نواز تے ہیں‬ ‫اے تو کس بیکس ں مونس بے چ رگ ں غمخوار آوارگ ں آؤ پی ر‬ ‫سے حبی ( ) شیخ عثم ن‬‫غ ل نے’’ غمخوار ‘‘کو بڑے الگ سے م نی دے دئیے ہیں ۔وہ‬‫جو دوست ک غ برداشت ن کرسکے اور س را م م ب زار میں‬ ‫لے آئے‬‫کی غمخوار نے رسوا ‪ ،‬لگے آگ اس محبت کو ن لاوے ت جو‬ ‫غ کی‪ ،‬وہ میر اراز داں کیوں ہو‬ ‫‪ :‬غیر‬‫ل ظ غیر کو اہل لغت ص ت قراردیتے ہیں ت ہ ی ل ظ بطور س بق ‪،‬‬‫م رد ل ظ سے مرک ہوکر بطور کردار بھی است م ل ہوت ہے۔ ل ظ‬ ‫اجنبیت کی فض پیدا کرت ہے اور کسی غیر مت ‪ ،‬ن محر اور‬ ‫ن واقف شخص ک تصور س منے لات ہے۔ ن سی تی سطح پر‬ ‫’’غیر‘‘ م م کی پوشیدگی پر راغ کرت ہے۔ اس ک ت‬ ‫محدود ی عد ت ون سے وابست رہت ہے ۔ اس لئے اس سے‬ ‫کوئی خ ص گ تگو کرن ممکن نہیں ہوت ۔ اردوغزل میں ’’غیر‘‘‬ ‫بطور کردار مخت ف حوالوں سے است م ل ہوت آی ہے جو انسیت‬

‫‪253‬‬‫اور ال ت سے کوسوں دور نظر آت ہے۔ ب ض اوق ت رقی ‪ ،‬ح سد‬ ‫اور حریف کے طور پر س منے آت ہے۔ ع ش ‪،‬کسی دوسرے‬ ‫ع ش کو ایک ہی محبو کے لئے غیر خی ل کرت ہے۔‬ ‫ش ہ ق ی خ ں ش ہی نے دوسرے ع ش کے م نوں میں اس ل ظ‬ ‫ک است م ل کی ہے‬ ‫م ن تمہن ک غیر سے کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کہے‬ ‫کس کس ک من موندوں سجن کوئی کچھ کہے کوئی کچھ‬ ‫کہے( )ش ہی‬ ‫میر محمود ص بر کے ہ ں بھی دوسرے ع ش کے م نوں میں‬ ‫ہواہے‬ ‫مج س میں دیکھ غیر کے گ روکوں ص بر ہے چش ودل میں ہر‬ ‫مژہ خ رآرسی کے تئیں ( ) ص بر‬ ‫اشر ف ع ی فغ ں ن محر کے لئے ’’غیر ‘‘ ک ل ظ است م ل میں‬ ‫لاتے ہیں‬ ‫م ے ہے غیر سے ‪ ،‬ہر گز اسے حج نہیں کہوں تو کہ نہیں‬ ‫سکت ہوں تو ت نہیں (‪ ) ۷‬فغ ں‬ ‫چندا نے بھی رقی کے م نوں میں نظ کی ہے‬ ‫گر چھوڑ بز غیر کو آج ئے ی ں ت ک دکھلاؤں تجھ کو ایس ہی‬

‫‪254‬‬ ‫جس ک ہے ن رقص ( ) چندا‬ ‫خواج درد غیر سے مراد ح سد لیتے ہیں‬‫غیر بکتے ہیں عبث ‪،‬میرے پی ر ے تیری بے وف ئی نہیں محت ج‬ ‫بدآموزی کی ( ) درد‬ ‫ہر ع ش دوسرے ع ش کو اپنے محبو کے لئے ’’غیر ‘‘‬ ‫سمجھت ہے اوری فطری سی ب ت ہے ۔ی صور ت دونوں‬ ‫ع شقوں کی طر ف سے ہوتی ہے۔ غ ل قدم سے مخت ف نہیں‬ ‫ہیں ۔ ہ ں خ یف س فر اور کھ ی شوخی اسے دوسروں سے‬ ‫ممت ز بن دیتی ہے۔ غیر ‪ ،‬جو ع ش ہے محبو کے لئے آہ‬ ‫وزاری کرت ہے اور اپنی آہ وزاری کے ثمر ب ر ہونے کی توقع‬‫بھی رکھت ہے۔ دوسرا ع ش جو خو دکو حقیقی اورکسی دوسرے‬ ‫کو جھوٹ سمجھت ہے اس کی ح لت زار دیکھ کر خوش ہوت ہے۔‬ ‫ی صورتح ل خطرن ک بھی سکتی ہے۔ اس کی آہ وزاری پر‬‫محبو کو رح بھی آسکت ہے۔ بہرح ل غ ل کے نزدیک وہ غیر‬ ‫ہے۔ اس کی آہ وزاری کو دیکھ کر ع ش نمبر ایک ک ک یج‬ ‫ٹھنڈا ہون ک وہ اذیت میں ‪ ،‬فطری سی ب ت ہے‬ ‫دیکھ کر غیر کو ہو کیوں ن ک یج ٹھنڈا ت ل کرت تھ ولے ط ل‬ ‫ت ثیر بھی تھ‬ ‫غیر (دوسرے ع ش کے لئے ) کی زب ن میں مٹھ س ہوتی‬‫ہے۔اوروہ اس مٹھ س کے حوال سے ک می بی ک خواہ ں ہوت ہے‬

‫‪255‬‬ ‫ہوگئی ہے غیر کی شیریں زب نی ک رگر عش ک اس کو گم ں ہ‬ ‫بے زب نوں پر نہیں‬ ‫فرشت ‪ :‬ی ل ظ من ی اورمثبت م ہی میں رائج چلا آت ہے۔ ت ہ‬‫زی دہ تر من ی م ہو کے لئے کسی س بقے ی لاحقے کی ضرورت‬ ‫پیش آتی ہے۔ اسے مخبر (نکرین) کے م نوں میں بھی لی‬ ‫ج ت ہے۔ من ی صورتوں کی موجودگی کے ب وجود ی ل ظ مثبت‬ ‫م نوں میں لی ج ت ہے۔ ی ل ظ سنتے ہی ڈھ رس سی بند ھ ج تی‬ ‫ہے ۔ مشکل کش ئی کی امید ج گ اٹھتی ہے۔‬ ‫اردو ش عر ی میں بطور کردار فرشت مخت ف حوالوں سے وارد‬ ‫ہواہے۔ مثلاا‬‫شیخ محبو ع ل عرف شیخ جیو ن نے اسے من ی م نوں میں‬ ‫است م ل کی ہے‬ ‫تکبر سے شیط ن دات گی فرشتے سے وہ دیودات گی‬‫چلابہشت کو ں وہ بن کر براں غض کے فر شتے نہیں کھینچے‬ ‫پراں ( ) شیخ جیون‬ ‫بھگوانت رائے راحت نے روپ بھیس بدلی لینے والا کے‬ ‫م نوں میں است م ل کی ہے‬ ‫کی کس نے ی ج ودئی س مری فرشت ہوا کس طرح سے پری‬

‫‪256‬‬ ‫( ) راحت‬ ‫رائے ٹیک چند بہ ر نے حسن وجم ل سے مت ثر ہونے والی‬ ‫مخ و کے طور پر نظ کی ہے‬ ‫اس گل بدن ک جو دوان ہوتو کی اچرج فرشتے ک بھی دلی ایسی‬ ‫پر ی اوپر لبھ ت ہے( ) بہ ر‬ ‫علام الط ف حسین ح لی آدمی کے روپ گنواتے ہوئے فرشتے‬ ‫کو بطور پیم ن است م ل کرتے ہیں ک آدمی ب ض اوق ت اچھ ئی‬ ‫کی مورتی بن ج ت ہے‬ ‫ج نور‪ ،‬آدمی ‪ ،‬فرشت خدا آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں ( )‬ ‫ح لی‬ ‫غ ل کے ہ ں بڑا خوبصور ت اور اچھوت است م ل م ت ہے۔ وہ‬ ‫اسے بطور منشی اور گواہ کے نظ کرتے ہیں‬ ‫پکڑے ج تے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ن ح آدمی کوئی‬ ‫)!ہم را‪،‬د تحریر بھی تھ (؟‬ ‫‪ :‬ق تل‬ ‫قتل بڑاخطرن ک اور گھن ؤن ف ل ہے۔ اس کے ب وجود انس نی‬‫م شروں میں روزاول سے سی سی ‪،‬م شی ‪ ،‬م شرتی ‪ ،‬اخلاقی‬ ‫اور انس نی قتل ہوتے آئے ہیں اور ق تل اسی م شرے میں بلا‬ ‫خوف وترودگھومتے پھرتے ہیں ۔ ان پر کبھی گرفت نہیں ہوتی‬

‫‪257‬‬ ‫۔ل ظ ق تل سنتے ہی بے رح اور سنگدلی شخص کی تصویر ‪،‬‬ ‫آنکھوں کے س منے گھومنے لگتی ہے۔ غص ‪ ،‬ن رت ‪ ،‬خوف‬ ‫اور تح ظ ذات ک احس س ج گ اٹھت ہے۔ تل تل قتل ہوتے اورقتل‬ ‫کرتے لوگوں کی تصویر آنکھوں کے س منے آج تی ہے۔اردو‬ ‫ش عری میں ی ل ظ زی دہ تر محبو کے لئے است م ل ہوت‬ ‫آی ہے۔‬ ‫مرزا مظہر ج ن ج ن ں نے مت ثرکرنے ‪ ،‬دلی بہلانے او رسوچیں‬ ‫ج مد کرنے والے کو ق تل ک ن دی ہے‬ ‫خدا کے واسطے اس کو ن ٹھوکو یہی اک شہر میں ق تل‬ ‫رہ ہے( )ج ن ں‬ ‫مرزا دبیرکے نزدیک ق تل موڈ میں رہت ہے اور اس کی‬ ‫بدمزاجی ہمیش برقرار رہتی ہے‬ ‫من بن ئے کیوں ہے ق تل پ س ہے تیغ نگ ہ ب میں ہنستے ہیں‬ ‫)گل تو من بگ ڑ اچ ہیے(‬ ‫غ ل اس کردار کو اس کی دیدہ دلیری اور اس کی اذیت پسندی‬‫کے حوال سے پیش کر تے ہیں ۔ ق تل بڑا بے خوف ہوت ہے۔ اگر‬‫اس پر خوف ط ری ہوج ئے تو وہ قتل ایس خوفن ک ف ل ہی کیوں‬ ‫سرانج دے۔ مقتول ک تڑپن ‪ ،‬پھڑکن اور لوٹن اسے خوش‬ ‫آت ہے ۔ ج ن ج نے ک منظر اسے تسکین دیت ہے‬

‫‪258‬‬ ‫ڈرے کیوں میرا ق تل کی رہے گ اس کی گردن پر‬ ‫وہ خوں جو چش ترسے عمر بھی یوں دمبد نک ے‬ ‫ہوائے سیر گل ‪،‬آئین ء بے مہری ق تل ک انداز بخوں غ طیدن‬ ‫بسمل پسند آی‬ ‫ی بھی واضح کر تے ہیں ک ق تل ک دبدب اور سطوت ‪ ،‬ست ئے‬ ‫ہوئے لوگوں کی آہ وزاری کو روک نہیں سکتی‬ ‫ن آئی سطوت ق تل بھی م نع میرے ن لوں کو لی دانتوں میں‬ ‫جوتنک ہوا ریش نیست ں ک‬ ‫‪:‬ک فر‬ ‫ی ل ظ قدی سے اردو میں مخت ف م ہی میں رائج چلاآت ہے ۔‬‫ش عری میں اس سے محبو مراد لی ج ت رہ ہے ت ہ اس شخص‬ ‫کے لئے زی دہ م روف ہے جو دین اسلا ک انک ری ہو۔ ی ل ظ‬‫سنتے ہی ایک ضدی قس کے شخص ک خ ک ذہن کے کینوس پر‬ ‫ترکی پ نے لگت ہے۔‬‫ح فظ عبدالوہ سچل نے اسلا کو ن م ننے والے کے لئے اس‬ ‫ل ظ ک است م ل کی ہے‬ ‫کبھی مومن کبھی مس ‪ ،‬کبھی ک فر کہ ہے کبھی ملا‪ ،‬کبھی‬

‫‪259‬‬ ‫ق ضی ‪ ،‬کبھی ب من بلای ہے( ) سچل‬ ‫فقیر اللہ نے تس ی ن کرنے والا ‪ ،‬ن م ننے والا ‪ ،‬انک ر کرنے‬ ‫والے کے لئے ل ظ ک فر نظ کی ہے‬ ‫گورایسے بوجھ منزہ ذات ن ہو ک فر ن ک ذات (‪ ) ۷‬فقیر اللہ‬ ‫میر ص د ع ی ص د بے مثل حسین ‪ ،‬جوگرفت میں ن آتی ہو‬ ‫کے لئے ی ل ظ است م ل کرتے ہیں‬‫ادا میں وہ ک فر توآف ت تھی جو صورت کی پوچھو تو کی ب ت تھی‬ ‫( )صد‬ ‫پیرمراد ش ہ مراد لاہور ی کے ہ ں ک بخت زخمی کرنے والا ‪،‬‬ ‫زخ دینے والا ‪ ،‬وہ جو مجروح کر دیت ہے ک م نوں میں ب ند ھ‬ ‫گی ہے‬ ‫کی زخمی کس ک فر نے آہ ی ح لت تر ی کس نے یوں کی تب ہ‬ ‫( ) مراد ش ہ‬ ‫میر سج د نے ست ڈھ نے والے ‪ ،‬بید اد ‪ ،‬بے حس کے م نوں‬ ‫میں اس ل ظ ک است م ل کی ہے۔‬ ‫ک فر بتوں سے دادن چ ہو ک ی ں کوئی مر ج ئے ست سے ان‬ ‫کے‪ ،‬توکہتے ہیں ح ہوا( ) میر سج د‬ ‫میر سوز نے م شرت کے اصولوں کے منکر‪ ،‬مبتلائے محبت‬

‫‪260‬‬ ‫‪،‬کسی غیر اللہ کو دلی میں جگ دینے والے کے لئے ا س ل ظ ک‬ ‫انتخ کی ہے‬ ‫اہل ایم ں سوز کوکہتے ہیں ک فر ہوگی آہ ی ر راز دل ان پر‬ ‫بھی ظ ہر ہوگی ( ا) میر سوز‬ ‫ا غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک رگزاری ملاحظ ہو‬ ‫لے تو لوں سوتے میں اس کے پ ؤں ک بوس مگر ایسی ب توں‬ ‫سے وہ ک فربدگم ں ہوج ئے گ‬ ‫تس ی ن کرنے والا‪،‬ضدی ‪ ،‬ہٹ پر ق ئ‬ ‫تنگی دل ک گ کی ی وہ ک فرد ل ہے ک اگر تنگ ن ہوت تو‬ ‫پریش ں ہوت‬ ‫گدا‪ :‬ل ظ گدا سم عت پر من ی اثرات مرت کرت ہے۔ن گواری‬ ‫‪،‬حق رت اور ن رت سی پیداہوج تی ہے۔ بلاشب ح ج ت انس ن کے‬ ‫س تھ لگی ہوئی ہیں ۔ خود داری کے عوض ح جت کی برآوری‬ ‫اچھی نہیں لگتی ۔ اردو ش عری میں اس ک مخت ف م ہی میں‬‫است م ل پڑھنے کو م ت ہے۔ اس ک مترادف بھک ری بھی است م ل‬ ‫ہوت آی ہے۔‬ ‫شیخ بہ ؤ الدین ب جن اللہ سے ح ج ت کی برآوری کے خواستگ ر‬ ‫کے م نوں میں است م ل کرتے ہیں‬ ‫جو کچھ قسمت میں ہے وہی ہے گ گدا کوں ت وہی برآت رہے‬

‫‪261‬‬ ‫گ ( ) ب جن‬ ‫غلا مصط ی خ ن یکرنگ مت ثر ہونے والا ‪،‬گرفت میں آج نے‬ ‫ولا ‪،‬حسن ک ط ل ‪ ،‬حسن کے حصو ل کی ح جت رکھنے ولا ‪،‬‬ ‫م توح کے م نوں میں نظ کرتے ہیں‬ ‫زب ن شکو ہ سے مہندی ک ہر پ ت مسخر حسن کے ش ہ و‬ ‫گدا( ) یکرنگ‬‫محمد عظی الدین عظی کے ہ ں نہ یت ڈھیٹ اور ضدی قس کے‬ ‫ع ش کے لئے ی ل ظ است م ل میں آی ہے‬ ‫ب اللہ ک اس کے در ک گدا ہورہوں گ میں پ ی ہوں م ل حسن‬ ‫سے جس کے زات آج ( ) عظی‬‫صوفی ابراہی ش ہ فقیر نے م شو کے دیدار کی ح جت رکھنے‬ ‫والے کے لئے گداک ل ظ است م ل کی ہے‬ ‫گداہوں وہ پی در کے ‪ ،‬خزاں س م ں سکندر کے‬ ‫بجز دیدار دلبر کے ‪ ،‬عمر ج ندی ہے افرادی ( ) فقیر‬ ‫چند ا کے نزدیک نظرالت ت سے محرو رہنے والاگدا ہے۔ ی‬ ‫پھر وہ جو بے توجہگی ک شک ر رہت ہے‬ ‫گدا کے ح ل پر تونے نظر گ ہے ن کی ظ ل کی ی فرض ہ نے‬ ‫‪ ،‬سرترے ش ہی ک افسر تھ ( ) چند ا‬

‫‪262‬‬‫غ ل کے نزدیک گدا سے مراد ح جت مند لیکن دست سوال دراز‬ ‫کرنے کی خو ن رکھت ہو‬ ‫بے ط دیں تومزا ا س میں سو ام ت ہے وہ گدا جس کو ن ہو‬ ‫خوئے سوال ‪،‬اچھ ہے‬ ‫م نگ کر لی توکی لی ۔ح ت ح جت مند کی خودار ی ذبح کرکے‬ ‫کچھ دے تو اس دینے ک ف ئدہ کی اور اس لینے میں مزاکی ؟‬ ‫مہم ن‪ :‬مہ ن انس نی م شروں میں ہمیش سے لائ احترا‬ ‫رہ ہے اور اس کی آمد پر خوشی ک اظہ ر کی ج ت ہے۔ جشن من ی‬‫ج ت ہے۔ اسے من س پروٹوکول دی ج ت ہے۔ مہم ن مرضی ک ہوتو‬‫خوشی ہے کہن ک د رج اختی ر کرلیتی ہے۔ ل ظ مہم ن ‪ ،‬میزب نی‬ ‫کی تی ری پر اکس ت ہے ۔ انس نی م شرت ’’مہم ن ‘‘ کے احترا‬‫کی ق ئل رہی ہے۔ اردو ش عری میں مہم ن ک کردار بڑامحتر اور‬ ‫نم ی ں نظر آت ہے ۔آج بھی ‪ ،‬ج اپنی پوری نہیں پڑتی ‪،‬مہم ن‬ ‫کی آمدن گواری ک سب نہیں بنتی ۔ مہم ن ک پڑاؤ قط ی ع رضی‬ ‫اور مختصر ہوت ہے۔‬ ‫غلا مصط ی خ ں یکر نگ مختصر اور ع رضی پڑاؤ رکھنے‬ ‫والے کومہم ن ک ن دیتے ہیں‬ ‫کھ نے چلا ہے زخ ست ش میوں کے ہ تھ وو ہ تھ زندگی ستی‬ ‫مہم ن کربلا(‪ ) ۷‬یکر نگ‬

‫‪263‬‬‫چونک مہم ن جہ ں ڈیر ے ڈالت ہے وہ اس ک اپن گھر نہیں ہوت ۔‬ ‫لاکھ آؤ بھگت کی ج ئے اس کے اندر اجنبیت ک احس س موجود‬ ‫رہت ہے۔ قرب ن ع ی س لک کی زب نی سنئیے‬‫ت آگئے تو ہو ش کہ ں میزب ں ہو کون آج آپ اپنے گھر میں ہیں‬ ‫)کچھ مہم ں سے ہ (‬ ‫غ ل مہم ن کی آمد کو ب عث مسرت قرار دیتے ہیں ۔ اپنے اس‬ ‫ش ر میں مہم ن نوازی ک لوازم درج کرتے ہیں‬ ‫مدت ہوئی ہے ی رکو مہ ں کئے ہوئے جو ش قدح سے بز‬ ‫چراغ ں کئے ہوئے‬ ‫‪:‬ن صح‬ ‫انس ن کی بھلائی ‪ ،‬بہتری اور خیر کی اش عت کے لئے نبی‬ ‫پیغمبر ‪ ،‬پیر فقیر ‪ ،‬مص حین ون صحین وغیرہ اپنی اپنی حدود‬ ‫میں کوشش کرتے چ ے آئے ہیں۔ ک می بی اور ن ک می ‪ ،‬دونوں‬ ‫سے ان ک س من رہ ہے۔ ن ک می میں بھی وہ چپکے نہیں رہتے‬ ‫ب ک مصروف عمل رہتے ہیں۔ ع شقی ایس روگ ہے جوکسی‬ ‫دوا ی دع سے دورنہیں ہوت ۔ دلائل ع ش کے لئے بکواس‬ ‫محض سے زی دہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ ن صح ک احترا اپنی جگ‬ ‫لیکن اس کے کہے کو ایک ک ن سنتے او ردوسرے سے نک ل‬ ‫دیتے ہیں اور ’’ پرن ل ‘‘ اپنی مرضی کی جگ پر رہنے دیتے‬ ‫ہیں۔ ن صح کی ت خ گوئی ی سختی کی صورت میں اپنی ذات سے‬

‫‪264‬‬‫الجھ ج تے ہیں۔ ل ظ ن صح ‪ ،‬ایسے کردار کوس منے لات ہے جوہر‬ ‫وقت نصیحتوں ک تھیلا بغل میں دب ئے پھرت رہت ہے۔‬ ‫انس ن سیم بی فطرت لے کر زمین پراترا ہے۔ وہ ایک ہی قس‬ ‫کے ح لات اور م حول میں سکھی نہیں رہ سکت ۔ ہر لمح‬ ‫تبدی یوں ک خواہشمند رہت ہے۔ ی کہن درست نہیں ک وہ ن صح‬ ‫سے ت استوار نہیں کرن چ ہت ۔دراصل ن صح ک ایک س روی‬ ‫اور ایک سے انداز سے خوش نہیں آتے۔ ن صح ک کہ اسی وج‬ ‫سے اس پر مثبت اثرات نہیں چھوڑت اور وہ اس سے کنی‬ ‫کترات ہے۔ ی پھر بڑے ب ریک انداز میں اسے بر ابھلا بھی‬ ‫کہت ہے۔ ل ظ ن صح سنتے ہی ایک ایس شخص س منے آج ت ہے‬ ‫جس کے ’’کھیسے‘‘ میں پہ ے سے کئی ب ر کہی ہوئی ب توں‬ ‫کے سوا کچھ نہیں ہوت ۔ یہی نہیں اس کی مخصوص وضع قطع‬ ‫چ ل ڈھ ل اور اس و تک ذہن کے گوشوں میں گھو گھو‬ ‫ج ت ہے۔‬ ‫اردوغزل میں ی کردار پوری حشرس م نیوں کے س تھ ج و ہ‬ ‫گرہے۔ اردو غزل کے ش را نے اس کردار کو نہ یت خوفن ک بن‬ ‫دی ہے۔ اس کردار کے تم من ی پہ و بی ن کردیتے ہیں۔ خواج‬ ‫درد تو ب ق عدہ ن صح کو مخ ط کرکے کہتے ہیں ک میں تہی‬ ‫دامن (دین وایم ن کھو چک ہوں) ہوں ‪ ،‬اس لئے تمہ ری‬ ‫نصیحتوں ک ح صل جز ن ک می کے کچھ نہیں ہوگ ۔ی بھی‬ ‫کہ ج سکت ہے ک تمہ ری نصیحتوں کے ردعمل میں دین ودلی‬

‫‪265‬‬‫سے محرو ہوگی ہوں ۔ خواج درد کے کہے سے دو ب تیں ص ف‬ ‫‪:‬ہوج تی ہیں‬ ‫۔ ن صح دلی ودین سے تہی لوگوں کو بھی نصیحت کی س ن پر‬ ‫رکھت ہے‬ ‫۔ ن صح کے کہے ک الٹ اثر ہوت ہے‬ ‫ن صح! میں دین ودلی کے تئیں ا تو کھو چک ح صل‬ ‫نصیحتوں سے جوہون تھ ‪ ،‬ہوچک ( ) درد‬ ‫میر محمد ی ر خ کس ر ک کہن ہے ن صح تو بے ک ر میں‬ ‫سمجھ نے ک ک کرت ہے جبک جس راہ پر میں گ مزن ہوں اس‬ ‫میں میرے لئے راحت ک س م ن موجو دہے ۔ راحت کو تی گ‬ ‫کرن صح ک کہ کون اور کیوں م نے؟‬ ‫کی ہے ن صح تجھے ح صل مرے سمجھ نے میں آہ جو ں‬ ‫شمع ہے راحت مجھے مرج نے میں ( ) خ کس ر‬ ‫والا ج شیدا کے نزدیک ن صح ان لوگوں کو بھی نصیحتیں‬ ‫کرت ہے جو اپنے آپے میں ہی نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگوں کو‬ ‫نصیحتیں کرنے ک کی ف ئدہ ۔ نصیحتیں کرنے والے کوعقل مند‬ ‫کون کہے گ‬ ‫بے ف ئدہ ن صح تری ک مست سنیں گے بے ہوش ہیں‪ ،‬آواز پ‬ ‫اپنی نہیں سنتے ( ) شیدا‬

‫‪266‬‬‫شیخ امین احمد اظہر ک دعو ٰی ہے ک ن صح نصیحتیں تو کرت ہے‬‫اگر اس ’’آئین رو‘‘ کو دیکھ لے خود ہی کو بھول ج ئے گ ۔ گوی‬ ‫وہ نصیحتیں اس کے مت کررہ ہے‪ ،‬جسے وہ ج نت ہی نہیں۔‬ ‫کسی م م ے ‪/‬چیزسے مت مکمل آگہی کے بغیرکچھ کہن بھی‬ ‫سنن ‪ ،‬واج نہیں۔ آگہی کے بغیر ہر ’’کہ گی ‘‘ لای نی او ر بے‬ ‫م نی ہوت ہے‬ ‫شکل اس آئین رو کی دیکھی ن صح نے اگر محو حیرت بن کے‬ ‫وہ آئین س ں ہوج ئے گ ( ) اظہر‬ ‫غ ل کہتے ہیں ک ج م م حد بڑ ھ سے ج ئے تو ن صح ک‬ ‫احترا اپنی جگ لیکن اس کی تک یف فرم ئی قط ی بے نتیج‬ ‫رہتی ہے۔ دوسرا م وث شخص م م ے کے نت ئج سے آگہی‬‫رکھتے ہوئے بھی م وث چلا آت ہے ۔ ایسے میں ن صح ک کہ سن‬ ‫اس پر کی اثر کرے گ‬ ‫حضرت ن صح گر آئیں دیدہ ودلی فرش راہ کوئی مجھ کو ی‬ ‫توسمجھ دوک سمجھ ئیں توگے کی‬ ‫ن صح اگر سختی پرا ترآت ہے تون صح پرزور ن چ نے کی‬ ‫صورت میں پند لینے والا اپنی ذات نو سے الجھ ج ئے گ ۔ گوی‬ ‫ن صح کی ک روائی‪ ،‬م م ے کے حل میں مدددینے کی بج ئے‬ ‫م م ے کو مزید الجھ کر رکھ دے گی‬ ‫ن لڑن ن صح سے غ ل ‪ ،‬کی ہوا اگراس نے شد ت کی‬

‫‪267‬‬ ‫ہم ر ابھی توآخر زور چ ت ہے گریب ں پر‬ ‫‪:‬ن م بر‬‫تحریری پیغ م ت دوسروں تک پہنچ نے کی ح جت انس ن کو رہتی‬ ‫‪:‬ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں‬ ‫۔ وہ ب ت جو خود ن کہی ج سکتی ہو اس کے کہے ج نے کے‬ ‫لئے کسی دوسرے ک سہ ر الین پڑت ہے‬ ‫۔ دور دراز کے علاقوں میں پیغ پہنچ نے کے لئے تیسرے‬ ‫شخص کی خدم ت ح صل کی ج ئیں‬ ‫اردو غزل میں اس فریضے کو سرانج دینے والے کو ن م بر‬ ‫کہ گی ہے۔ ل ظ ن م بر سنتے ہی کسی اچھی ی بری خبر کے‬ ‫لئے ذہنی طور پر تی ر ہون پڑت ہے۔ وزیر نے پیغ لانے والے‬ ‫کو ن م بر ک ن دی ہے‬ ‫خط پ خط لائے جومر ن م بر بوے ان مرغوں ک ڈرب کھل‬ ‫گی ( ) وزیر‬ ‫غ ل نے ن م بر کو مخت ف زوایوں سے ملاحظ کی ہے‬ ‫کی رہوں غربت میں خوش ج ہو حوادث ک ی ح ل‬ ‫ن م بر لات ہے وطن سے ن م بر اکثر کھلا‬ ‫وہ جو پیغ ایک جگ سے دوسری جگ لے کر ج ئے لیکن‬

‫‪268‬‬ ‫پیغ کوپڑھ کر بددی نتی ک ارتک کرے‬ ‫ہولئے کیو ں ن م بر کے س تھ س تھ ی ر اپنے خط کو ہ‬ ‫پہنچ ئیں کی‬ ‫پیغ لے کر ج نے والے پرراز داری ک بھروس نہیں‬ ‫‪:‬وعظ‬ ‫انس نی سم ج ک بڑا مضبوط اوراہ کردار رہ ہے ۔ لوگوں کو‬ ‫نیکی پر لگ نے اور بدی سے ہٹ نے کے لئے اپنی سی کوشش‬ ‫کرت رہ ہے ۔ ایسی بھی ب تیں کرت رہ ہے جن ک عم ی زندگی میں‬ ‫کوئی حوال موجو د نہیں رہ ہوت ۔ فرداکے حسین سپنے‬ ‫دکھ ت آی ہے ۔ ل ظ واعظ ایک ایسے شخص ک تصور س منے‬ ‫لات ہے جوخوف وہراس پھیلانے کی کوشش کرت رہت ہے اور‬ ‫اسے نیکی کی اش عت ک ن دیت ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی‬‫( )پھیلانے کی ٹھ نے ہوت ہے ۔ دھواں دھ ر تقریریں کرت ہے‬ ‫۔ ایسی ب تیں بھی کہ ج ت ہے جن پر وہ خود عمل نہیں کر‬ ‫رہ ہوت ی ان پر انج دہی کے حوال سے م ذور ہوت ہے۔‬ ‫ی ل ظ خشک ‪ ،‬سٹریل ‪ ،‬بدمزاج او رضدی قس ک شخص‬‫س منے لا کھڑا کرت ہے ۔ اس کردار سے م نے ک شو پید انہیں‬‫ہوت ب ک اس کی بے عمل ‪ ،‬خشک اور خلائی گ تگو سے بچ کر‬ ‫نک نے کی سوجھتی ہے۔ اس کردار سے مت اردو ش عر ی‬ ‫میں بہت سے زاویے اور حوالے موجو دہیں۔مثلاا‬

‫‪269‬‬ ‫ہمیں واعظ ڈرات کیوں ہے دوزخ کے عذابوں سے‬ ‫م صی گوہم رے بیش ہوں کچھ مغ رت ک ہے( ) بہ ر‬ ‫ڈر ‪،‬خوف اور ہرا س پھیلانے والا‬ ‫ج اصل مذاہ کو واعظ سیتی ہ پوچھ‬ ‫ت ہ سے کہنے لگ قص وحک ی تیں ( )میر محمد حسن‬ ‫کی‬ ‫غ ط س ط اور غیر مت ب تیں کرنے والا ۔ دوسرے ل ظوں میں‬ ‫ع و دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے سن کر لوگوں‬ ‫کومخمصے میں ڈالنے والا اور پنے بہترین ن لج ک سک بٹھ نے‬ ‫کی کو شش کرنے والا‬ ‫واعظو‪ ،‬آتش دوزخ سے جہ ں کو ت نے‬ ‫ی ڈرای ک خود بن گئے ڈر کی صور ت (‪) ۷‬الط ف حسین‬ ‫ح لی‬‫لوگوں میں آخرت کے عذا کے حوال سے اس قدر خوف ہراس‬ ‫پیدا کرنے والا ک لوگ اس سے م نے سے بھی خوف کھ نے‬ ‫لگیں ۔‬ ‫ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے میکدے‬ ‫واعظ تری نگ ہوں سے ڈرن پڑا مجھے ( )آش پر بھ ت‬

‫‪270‬‬ ‫غ ل ک اپن ڈھنگ ہے۔ واعظ کے کہے پر حیران نہیں ہوتے‬ ‫ب ک بڑا ع لیتے ہیں‬ ‫کوئی دنی میں مگر ب نہیں ہے واعظ خ د بھی ب ہے خیر آ‬ ‫وہوا اورسہی‬ ‫‪:‬ی ر‬ ‫ی ر بڑا ع س ل ظ ہے اور ہم رے ہ ں بہت سے م نوں میں‬ ‫است م ل ہوت ہے مثلاا گہر ادوست ‪،‬لنگوٹی ‪ ،‬مددگ ر‪،‬ت ون کرنے‬ ‫والا‪ ،‬برے وقت میں ک آنے والا ‪ ،‬دوستوں ک دوست ‪ ،‬نبھ‬ ‫کرنے والا ‪ ،‬ب زاری م نوں میں کسی عورت ک ع ش وغیرہ ۔‬ ‫ی ل ظ تسکین ک سب بنت ہے۔ ہمت بند ھ ج تی ہے اور امداد‬ ‫م نے ک احس س ج گ اٹھت ہے ۔ اعص بی تن ؤ ک ہو ج ت ہے۔‬ ‫غ ل کے ہ ں ی ر ‪ ،‬ہمددر کے م نوں میں است م ل ہواہے‬‫مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غ ل ی ر لائے مری ب لیں‬ ‫پ اسے ‪ ،‬پر کس وقت‬ ‫ہمددر اور جگر ی دوست جو ی ر کو خوش رکھنے کو بگڑے‬ ‫‪،‬ن راض ‪ ،‬ضدی اوراڑیل کو بھی من کر دوست کے در پر لے‬ ‫آئیں ۔‬‫مولان عبدی نے حضور ﷺ کے لئے ی ر ک ل ظ است م ل کی ہے‬

‫‪271‬‬ ‫اللہ مولا پ ک ہے جو جگ سرجن ہ ر جن دی ی رصد سوں‬ ‫سوے اترے پ ر( )مولان عبدی‬ ‫قزلب ش خ ں امید نے گھر کے محبو ترین فرد کے لئے اس‬ ‫ل ظ ک انتخ کی ہے‬ ‫ی ر بن گھر میں عج صحبت ہے درودیوار سے ا صحبت ہے‬ ‫( ) امید‬ ‫ش ہ مب رک آبرو نے محبو کے لئے است م ل کی ہے جو پی ر‪،‬‬ ‫محبت اور شو کو فراموش کر دیت ہے۔ اس طرح انہوں نے‬ ‫محبو پیش لوگوں ک وتیر ا اورعمومی روی اورچ ن کھول کر‬ ‫رکھ دی ہے‬ ‫افسو س ہے کی مجھ کو وہ ی ربھول ج ئے وہ شو وہ محبت‬ ‫وہ پی ر بھول ج ئے( ) ش ہ مب رک آبرو‬ ‫عبدالحی ت ب ں کے نزدیک جس کے بن دلی بے چین وبے کل‬ ‫رہے‬ ‫بہت چ ہ ک آوے ی ر ی اس دلی کو صبر آوے ن ی ر آی ن صبر‬ ‫آی دی جی میں نداں اپن ( ) ت ب ں‬ ‫میر ع ی اوسط رشک کے نزدیک ایس دوست جس کی محبت ‪،‬‬ ‫چ ؤ اور گرمجوشی سے تہی ہو‬ ‫ی ر کو ہ سے لگ ؤ نہیں وہ محبت نہیں وہ چ ؤنہیں ( )‬















































‫‪295‬‬‫لکھت ہوں اسد سوز ش دل سے سخن گر ت ن رکھ سکے میرے‬ ‫حرف پرانگشت‬ ‫‪:‬ب زار گر ہون‬ ‫ب زار گر بودن ‪ ،‬خو بکری ہون ‪ ،‬م نگ ہون ‪/‬بڑھن ‪ ،‬م ل کی‬ ‫ڈیم نڈ بڑھ ج نے کے حوال سے بولا ج نے والا مح ورہ ہے ۔‬‫اردو میں بھی قریب ا ان ہی م نوں میں است م ل میں آت ہے۔( )‬ ‫غ ل نے مح ورے کو اور ہی رنگ دے دی ہے وسی میں‬ ‫صورتح ل کچھ یوں م تی ہے‬ ‫الف۔ عدالتوں میں مقدمے ب زی کے حوال سے س ئ وں اور اہل‬ ‫ک روں کے درمی ن ایسی ہی صورت دیکھنے کوم تی ہے۔‬ ‫۔ ۔ب زار حسن میں کلالوں اور گ ہکوں کے درمی ن سودے‬ ‫ب زی ک منظر مخت ف نہیں ہوت ۔‬ ‫ٍ ۔ حسن میں اج رہ رکھنے والے حسین کے حصول کے لئے‬ ‫اہل ذو اپنی حیثیت سے بڑھ کر ادا کرنے ی شرائط‬ ‫م ننے کے لئے تی ر ہوتے ہیں ۔‬ ‫غ ل نے مح ورے کے نئے م ہی میں است م ل کی راہ کھول‬ ‫دی ہے‬ ‫پھر کھلا ہے در عدالت ن ز گر ب زار فوجداری ہے‬

‫‪296‬‬ ‫غلا رسول مہر تشریح میں لکھتے ہیں‬ ‫پھر ن ز کی عدالت ک دروازہ کھل گی اور فوجداری کے ’’‬ ‫)مقدمے ب کثرت ہونے لگے‘‘۔(‬ ‫محبو کے حوال سے لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کے‬ ‫خلاف زہر اگ نے ک وتیرہ نی نہیں ۔ غ ل نے اس حقیقت کو‬ ‫بڑی عمدگی سے پیش کی ہے۔‬ ‫‪ :‬بب د دین‬‫بی ددادن ‪ ،‬ف رسی ک بڑا م روف مح ورہ ہے جوتب ہ کرن ‪ ،‬منتشر‬ ‫کر دین ‪ ،‬بکھیر دین وغیرہ کے م نوں میں است م ل ہوت ہے۔‬‫بب د ہندی اس مذکربھی ہے اور اس سے بب د اٹھن مح ورہ بم نی‬ ‫فس داٹھن ‪ ،‬فس د کرن موجود ہے ۔ ت ہ ی بب ددادن سے قط ی‬ ‫الگ چیز ہے ۔ اس میں بغ وت شرار ت اور شرینتر کے عن صر‬ ‫موجود رہتے ہیں ۔ بب د دادن توڑ پھوڑ اور لخت لخت کردینے‬ ‫کے حوالوں سے منس ک رہت ہے۔‬ ‫بب د دین ‘‘ فصیح ترجم ہے اس کے ب وجود رواج نہیں پ سک ۔‬ ‫’’ بی د اٹھن ‘‘ بھی اردو میں رواج نہیں رکھت ۔‬ ‫ق ئ چ ندی پوری کے ہ ں ’’ بی دج ن ‘‘ نظ ہواہے‬‫گئے بب د ن ا کے تو بخت میں اپنے کوئی دن اور بھی دنی کی‬ ‫ب ؤ کھ ن تھ ( )ق ئ‬

‫‪297‬‬‫بب د ج ن ‪ ،‬بب د دادن ک ترجم ہے۔ غ ل نے دادن کے لئے اردو‬ ‫م ون ف ل ’’ دین ‘‘ برت ہے‬ ‫ن ل ء دل نے دئیے اور ا لخت دل بب د ی د گ ر ن ل ایک دیوان‬ ‫بے شیرازہ تھ‬ ‫غ ل نے ’’ بی د دین ‘‘ کو منتشر کر دین کے م نوں میں برت‬ ‫ہے۔ غلا رسول مہر نے اڑن ہواکے حوالے کردین ‪ ،‬پریش ن و‬ ‫)برب د کردین ‪ ،‬م نی مراد لئے ہیں (‬ ‫‪:‬بروئے ک رآن‬ ‫بروئے ک ر آمدن ‪ ،‬ش داں ب گرامی کے نزدیک بروئے ک ر آمدن‬ ‫’’ ظ ہر شدن ‘‘ سے کن ی ہے ( ) بروئے ک ر آن ‪ ،‬قد رکھن‬‫‪ ،‬کی طرف آن ‪ ،‬وارد ہون ‪ ،‬برسرک ر آن ‪ ،‬ک آن ت ہی رکھت ہے۔‬ ‫غ ل نے جن م نوں میں است م ل کی ہے ار دو بول چ ل سے‬‫مط بقت نہیں رکھتے ۔ آمدن ک ’’ آن ‘‘ ترجم کرنے کے ب وجود‬ ‫مح رے کے اس و و م نی ف رسی ہیں ۔‬ ‫جز قیس اور کوئی ن آی بروئے ک ر صحر ا مگر ب تنگی چش‬ ‫حسود تھ‬ ‫‪:‬پروازدین‬ ‫پرواز دادن داشتن ک اردوترجم پرواز دین کی گی ہے ۔ ایک‬ ‫دوسر امح ورہ ’’ پر وب ل داشتن ‘‘ بم نی ط قت و قوت ک ہون‬

‫‪298‬‬ ‫ف رسی میں ع است م ل ک مح ورہ ہے۔ پرواز دین ‪ ،‬قوت فراہ‬ ‫کرن ‪ ،‬مزید بہتری پیدا کرن ‪ ،‬صلاحیت میں اض ف کرن ‪ ،‬شکتی‬ ‫بڑھ ن وغیرہ م نوں میں است م ل نہیں ہوت ۔ ش ر میں مط ی‬ ‫بنت ہے ج تک ج و ے کے تم ش (دیکھنے ) کی صلاحیت پیدا‬ ‫نہیں ہوتی ‪ ،‬انتظ ر کی اذیت سے گذرن ہوگ ۔ غلا رسول مہر‬ ‫کے مط ب‬ ‫ہم ری طب یت ک برداشت کرسکتی ہے ک انتظ ر کے آئینے ’’‬ ‫)کو صیقل اور جلا دیتے رہیں ‘‘ (‪۷‬‬ ‫مہر ص ح کے حوال سے انتظ ر کی اذیت واضح ہوتی ہے ک‬ ‫ک تک آخر انتظ ر کی ج ئے ۔ اس طرح عج ت پسندی س منے‬ ‫آتی ہے ۔عج ت بگ ڑ ک سب بنتی ہے۔ غ ل یقین ااس ف س ے‬ ‫سے آگ ہ تھے ۔ دیر آید درست آید مقول ان سے پوشید ہ نہیں‬ ‫رہ ہوگ ۔‬ ‫پروازدین ‪ ،‬صلاحیت بڑھ ن ‪ ،‬صیقل کرن ‪ ،‬جلا دین وغیرہ ایسے‬ ‫م نوں میں است م ل ہواہے ۔مح ورہ فصیح سہی م نوس نہیں ‪،‬‬ ‫اس لئے چل نہیں سک ۔‬ ‫وص ل ج وہ تم ش ہے پر دم کہ ں ک دیجے آئین انتظ ر کو‬ ‫پرواز‬ ‫مط صر ف اتن ہے ج وے کے لئے انتظ ر کی اذیت سے گذرن‬ ‫پڑت ہے مگر انتظ ر کی اذیت سے گذرے کون؟‬

‫‪299‬‬ ‫‪:‬پرورش دین‬ ‫پرورش داشتن ک ترجم ہے ۔نشوونم پرورش ‪ ،‬پ لن پوسن‬ ‫‪،‬ت ی و تربیت ‪ ،‬مہرب نی‪ ،‬عن یت کرن کے م نوں میں است م ل‬ ‫ہوت ہے( ) پرورش کے س تھ کرن اور ہون مص در ک است م ل‬ ‫ہوت ہے۔ دین اردو مصدر سہی لیکن اس سے ف رسی اس و‬ ‫ترکی پ گی ہے ۔ اردو اس و کچھ یوں بنت‬ ‫غ آغوش بلا میں پرورش کر ت ہے ع ش کی‬ ‫ا غ ل ک مصرع ملاحظ ہو‬ ‫غ آغوش بلا میں پرورش دیت ہے ع ش کو‬ ‫مصرع اول الذکر اردو اس و ک نم ئندہ سہی لیکن من رد ‪،‬‬ ‫خوبصورت اور فصیح نہیں جبک مصرع ث نی الذکر ف رسی‬ ‫اس و ک ح مل ہے لیکن ہر س عن صر اپنے دامن میں سمیٹے‬ ‫ہوئے ہے۔ ا غ ل ک پور ا ش ر پڑھیں ش ر کے لس نی سیٹ‬ ‫اپ میں مصدر دین ہی من س اور خوبصور ت لگت ہے‬ ‫غ آغوش بلا میں پرورش دیت ہے ع ش کو چرا روشن اپن‬ ‫ق ز صرصر ک مرج ں ہے‬ ‫‪:‬تشن آن‬

‫‪300‬‬ ‫تشن آمدن ‪ ،‬تشن ہون‬ ‫مشت ہون ‪ ،‬ط ل ہون ‪ ،‬آرزو مند ہون ‪ ،‬خواہش مندہون‬ ‫ل ظ تشن اردو کے لئے نی نہیں ۔ اس ک مخت ف حوالوں سے‬ ‫است م ل ہوت آی ہے۔ مخت ف نوع کے مرکب ت بھی پڑھنے کو‬ ‫م تے ہیں ۔ مثلاا‬ ‫تشن ک می ‪ /‬تشن ک‬ ‫تیرا ہی حسن جگ میں ہر چند موج زن ہے تس پر بھی تشن ک‬ ‫دیدار ہیں تو ہ ہیں ( ) درد‬ ‫تشن ء خوں‬ ‫دشمن ج ں ہے تشن ء خوں ہے شوخ ب نک ہے ‪،‬نکبت بھوں‬ ‫ہے ( ) آبرو‬ ‫تشن ل‬ ‫جوک م ئل ہے تیغ ابرو ک تشن ل ہے وہ اپنے لوہو ک ( )‬ ‫راق‬ ‫مخت ف نوعیت کے مح ورات بھی اردو زب ن کے ذخیر ے میں‬ ‫داخل ہیں ۔ مثلاا‬‫کچھ مدارات بھی اے خون جگر پیک ں کی تشن مرت ہے کئی دن‬ ‫)سے ی مہم ں تیرا ( ) فغ ں ( تشن مرن‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook