Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪751‬‬ ‫سیلا بلا ہے ۔اسے گ ے لگ نے والے کہ ں م تے ہیں۔ اس‬ ‫سین ریومیں ش ر کی ت ہی کریں تو غ ل کی ی تصویر حقیقی‬ ‫لگتی ہے۔ دوسرا طرف ی بھی دیکھیں استواری کر بلا سے‬‫دوچ ر کرتی ہے۔ سوچن ی ہے ک ’’میرے ب د‘‘ ا س ک کی بنے‬ ‫گ ۔ ج کچھ نظر نہیں آت تو عش کے مستقبل کی ت ریکی پر‬ ‫رون نہیں آئے گ تو اور کی ہوگ ۔‬ ‫مجھے ا دیکھ کر ابر ش آلودہ ی د آی *‬ ‫ک فرقت میں تری آتش برستی تھی گ ست ن پر‬ ‫فرقت ‪،‬یقین اآگ سے مم ثل چیزہے ۔ آگ سرخی م ئل ہوتی ہے۔‬ ‫فرقت کے لئے‪ ،‬اس حوال سے ابر ش آلودہ تمثیل خو ہے ۔‬ ‫ابر کے برس ج نے کے ب د ب قی م ندہ ٹکڑے سرخی اختی ر کر‬‫ج تے ہیں ۔ فرقت میں آنسو بہ نے کے ب د آنکھیں سرخ ہو ج تی‬ ‫ہیں۔ اس مم ث ت کے پیش نظر غ ل نے فرقت کے لئے ’’ابر‬ ‫ش آلودہ‘‘ تمث ل اخیت رکی ہے۔ ی اصولی م م ہے ک موس‬ ‫انس نی موڈ ک س تھ دیتے ہیں۔ خوشی میں خوش‪ ،‬رنج میں‬ ‫رنجیدہ خ طر‪ ،‬ی نی وہ خوش ہے تو غیر دلچسپ موس بھی‬ ‫مسرور نظر آتے ہیں اگر ن خوش ہے تو بہتر سے بہتر منظر‬ ‫بھی اس کے لئے سوزش اور ج ن ک ب عث ہوگ ۔( ) چونک‬ ‫فرقت ک صدم من میں بسیرا کئے ہوئے ہے اس لئے گ ست ن‬ ‫جو پھولوں کی آم جگ ہ ہے‪ ،‬پر آگ برستی نظرآتی ہے اور ی‬

‫‪752‬‬ ‫آگ من کی آگ ہے۔ اسی طرح ابرش آلودہ فرقت ک پرتوٹھہر‬ ‫ج ت ہے۔ کروچے ک نظری ’’ اظہ ریت‘‘بھی تو یہی ہے اس کے‬ ‫نزدیک انس نی ذہین سے ب ہر کوئی چیز نہیں ب ک ذہن اپنے‬ ‫مق صد کے لئے ب ض اشی ء کو خ رجی طور پر متشکل کر لیت‬ ‫ہے( ) گوی انس نی ذہن نے جس چیز کو جواور جیس ن دے‬‫دی اس ک اظہ ر عین اصل کے مط ب ہون چ ہیے ۔ غ ل کی زیر‬ ‫حوال تمث ل ہی کولے لیں۔ فرقت کی ح لت میں گ ست ن پر آگ‬ ‫برسن ی فرقت کے لئے ابر ش آلودہ تمث ل گھڑن ‪ ،‬غ ط اورلا‬ ‫ی نی نظرنہیں آت ۔‬ ‫فرقت کی ح لت میں ابر خون آلودہ نظر آت ہے۔ فرقت آگ ہے۔‬ ‫گ ست ن میں موجودسرخ پھولوں کی چمک دمک آگ سی‬ ‫محسوس ہوگئی ۔ من میں آگ ہے تو خ رج میں برکھ رت‬ ‫کیونکر دکھ ئی دے گی۔ فرقت کے سب ‘خ رج آگ میں جلا اور‬ ‫خون میں نہ ی محسوس ہوگ ۔ غ ل کے ا س ش ر کے حوال‬‫سے بلا تک یف اور بلا تردد کہ ج سکت ہے ک مغر کے ن یس ت‬ ‫سے مت نظری ت کی آمد سے بہت پہ ے غ ل نے انس نی‬ ‫ن یس ت کی ب ریک سے ب ریک گرہیں کھول دی ہیں۔ اسی حوال‬ ‫سے کہ ج سکت ہے ک کروچے ک نظری اظہ ریت کل پرسوں‬‫بر صغیر میں وارد ہوا ہے جبک غ ل بہت پہ ے ایسے ن سی تی‬ ‫امور پر گ تگو کر چکے ہیں۔‬ ‫پ تے نہیں ج راہ تو چڑھ ج تے ہیں ن لے *‬

‫‪753‬‬ ‫رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور‬ ‫غ ل نے طبع کے رکنے کو ’’ن لے‘‘ک روپ عط کی ہے۔ ج‬ ‫کسی ندی ن لے میں کوئی رک وٹ آج تی ہے تو پ نی جمع ہون‬ ‫شروع ہوت ہے۔ پ نی کی ی بہت ت اس کی روانی کو اور تیز‬ ‫کردیتی ہے اور پھر پ نی ’’ن لے ‘‘ کے کن روں کو پھ ندت ہوا‬ ‫ادھرادھر سے گزرنے لگت ہے۔ انس نی ن سی ت بھی کچھ اسی‬ ‫طرح کی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ ک اظہ ر چ ہت ہے۔ دکھ سکھ‬ ‫سینے میں سج رکھنے سے شخص علالت کی گرفت میں آج ت‬‫ہے۔ سینے میں طوف ن مچ ج ت ہے۔ اظہ ر کی خواہش میں شدت‬‫آتی چ ی ج تی ہے۔ غ ل نے اس ن سی تی مس ے کو تمثی ی رنگ‬ ‫دے کر اس کی ضرورت اور اہمیت ک اج گر کرنے کی کوشش‬ ‫کی ہے ی بھی سننے میں آت ہے’’سینے میں دب رکھنے سے‬ ‫اس میں نکھ رآج ت ہے‘‘ ( ) ی نظری ج ن نہیں رکھت ۔ شدت‬ ‫کی صورت میں ب غی پن سے زی دہ کچھ نہیں آپ ئے گ ی پھر‬ ‫اس کی اصل میں تبدی ی آتی چ ی ج ئے گی۔ ی بھی ممکن ہے‬ ‫صورت کچھ کی کچھ ہوج ئے ۔ ی بھی ک م م ے کے جم‬ ‫مدارج اپنے اصل کے مط ب س منے نہیں آپ ئیں گے۔ قص‬ ‫مختصر روانی میں کوئی رک وٹ نہیں آنی چ ہیے۔ برابر‪ ،‬متواتر‬‫اور مس سل رہن اس کی ضرورت ہے۔ طبع کی روانی میں رک وٹ‬ ‫کو ن لے کے بہ ؤ میں رک وٹ پیدا ہونے کے مترادف قرار دے‬ ‫کر غ ل نے بڑی ش ندار تمثیل وضع کی ہے۔‬

‫‪754‬‬ ‫برنگ ک غذ آتش زدہ نیرنگ بیت بی *‬ ‫ہزار آئن دل ب ندھے ہے ب ل یک تپیدن پر‬‫بے ت بی‪ ،‬بے سکونی ک اوت ر ہے۔ کبھی چ نے لگت ہے تو کبھی‬ ‫رک ج ت ہے۔ بیٹھ ج ت ہے۔ ہ تھوں کو لاش وری طور پر حرکت‬ ‫دیت رہت ہے گوی بے ت بی میں تڑپ اور بے چینی کی خص ت‬ ‫موجود ہوتی ہے۔‬ ‫ج ے ہوئے ک غذ کو ذرا غور سے ملاحظ کریں وہ سمٹ اور‬ ‫سکڑ ج ت ہے۔ اس میں مخت ف انداز نمودار ہوج تے ہیں۔بے‬ ‫ت بی کی نیرنگی ا س سے مم ثل ہوتی ہے۔ی بھی ک بیت بی آگ‬ ‫ہے‪ ،‬جلاتی ہے اور خ کستر کر دیتی ہے۔ زندگی کے س رے آث ر‬ ‫چھین لیتی ہے۔ ج ے ک غذ کی ح لت اس سے‬‫مخت ف نہیں ہوتی ۔ بص رت دیکھنے میں کیسی ہوتی ہے بص رت‬ ‫اس کی اصل تک رس ئی سے ق صر رہتی ہے ۔غ ل نے اسے‬ ‫’’ک غذ آتش زدہ‘‘کے حوال سے ایک تمث لی جس دے دی ہے۔‬ ‫ن پوچھ وس ت میخ ن جنوں غ ل *‬ ‫جہ ں ی ک س گردوں ہے ایک خ ک انداز‬ ‫جنوں کی وس ت ک حدودارب مت ین کرن مشکل ہی نہیں ن‬‫ممکن ک بھی ہے۔ جنوں ایک کی یت ک ن ہے۔ غ ل نے ب لکل‬ ‫انوکھے انداز میں اس کی یت‪/‬ح لت ک حدودارب مت ین کر دی‬

‫‪755‬‬ ‫ہے ۔ جنوں کی وس توں کے آگے گردوں خ ک اندازہے۔ آسم ن‬ ‫کی وس تیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ غ ل ک کہن ہے جنوں کی‬ ‫وس توں کے آگے آسم ن’’ خ ک انداز‘‘ ہے ۔ اس پیم نے کے‬ ‫حوال سے جنوں کی وس توں کی پیم ئش ممکن ہی نہیں ت ہ‬ ‫غ ل کے اس ش ر کے حوال سے جنوں کے مت ایک امیج‬ ‫ضرور ترکی پ ج ت ہے۔‬ ‫کیونکر اس بت سے رکھوں ج ن عزیز *‬ ‫کی نہیں ہے مجھے ایم ن عزیز‬ ‫ایم ن کوئی دیکھی ج نے والی م دی چیز نہیں ہے۔ ہ ں اس کے‬ ‫مت ایک خ ک س ذہین میں ضرور موجود ہوت ہے اور ی‬ ‫سمجھی ہوئی ب ت ی م م ے ک ن ہے۔ محبو کو ج ن سے‬ ‫پی را رکھن اس لئے لاز ہے ک عش کے ایم ن ک یہی تق ض‬ ‫ہے۔ اگر’’بت‘‘ کو ج ن سے ک تر سمجھ ج ئے ک تو ی ایم ن‬ ‫(عش ) میں کجی کی دلیل ہوگی۔ غ ل کی ی ایمجری اپنے اندر‬ ‫کم ل کی قدرت رکھتی ہے۔‬ ‫دہن شیر میں ج بیٹھے لیکن اے دل *‬ ‫ن کھڑے ہو جئے خوب ن دل آزار کے پ س‬ ‫محبو سے استواری کو دہن شیر میں بیٹھن کے مم ثل ٹھہرای‬ ‫گی ہے۔ محبو کے س منے کوئی تن کر کھڑا نہیں ہوسکت ب ک‬

‫‪756‬‬‫مسکین انداز میں کھڑا ہون ہوت ہے اور کبھی دوزانو۔۔۔ دہن شیر‬ ‫میں آدمی بے بس اور سکڑاہوا ہوت ہے اس کے جبڑوں کی‬ ‫گرفت‪ ،‬تننے ک موقع فراہ نہیں کرتی اور ن ہی اپنی مرضی‬ ‫سے حرکت کرنے دیتی ہے۔ غ ل نے خوب ں سے ت کے‬‫حوال سے بڑی ش ندار تمث ل تخ ی کی ہے۔ ہر ص ح محبو ی‬ ‫ش دی شدہ شخص غ ل کی اس تمث ل پر داد دیئے بغیر نہیں رہ‬ ‫سکے گ ۔ شیر کے من میں بیٹھن خوب ں کے روبرو بیٹھنے‬ ‫سے کہیں بہتر ہے ۔کیونک شیر کے من میں موت طے ہے‬ ‫جبک محبو کے روبرو آدمی موت اور زندگی کے برزخ میں‬ ‫لٹک رہے گ ۔ غ ل نے اس ش ر میں محبو پیش لوگوں کی‬ ‫ع دت اور خص ت ک بڑی خوبی سے تجزی پیش کی ہے۔‬ ‫فرو حسن سے ہوتی ہے حل مشکل ع ش ن نک ے شمع *‬ ‫کے پ سے نک لے گرن خ ر آتش‬ ‫حسن کی ج وہ آرائی ع ش کی مشکل آس ن کر دیتی ہے۔ اس‬ ‫نظری کو غ ل نے بڑی خوبصورت تصویری شکل دے دی ہے‬ ‫اور ی تصویر مش ہدے سے علاق رکھتی ہے۔ شمع کے اندر‬ ‫دھ گ آگ کی وج سے ج ت ہے اور ی دھ گ شمع میں اوپر‬‫سے نیچے تک ہوت ہے۔ شمع کے ج نے کے س تھ ی دھ گ بھی‬ ‫جل ج ت ہے گوی شمع کے پ ؤں ک ک نٹ نکل ج ت ہے۔ اس طرح‬ ‫حسن کی ج وہ فرم ئی سے ع ش کی مشکل آس ن ہوج تی ہے۔‬ ‫عش کی ی کی یت ک اپن طور اور اپن رنگ ہوت ہے ت ہ وصل‬

‫‪757‬‬ ‫ع ش کی منزل ہوتی ہے۔ وصل میسرن آنے کی صورت میں‬ ‫ک نٹوں پر لوٹت ہے جبک وصل تسکین و آسودگی ک سب بنت‬ ‫ہے۔ غ ل نے اپنے اس ش ر میں شمع کے ج نے کے عمل اور‬ ‫دھ گے کے آخر تک جل ج نے سے ’’فرو حسن‘‘ کو مم ثل‬ ‫قرار دی ہے۔ حسن ک مکمل ج وہ شمع کے پ سے ک نٹ نکل‬ ‫ج نے کے مترادف ہے۔ انس نی فطرت ہے ک وہ تکمیل میں‬‫آسودگی محسوس کرت ہے ورن بے چینی و بے قراری ک شک ر‬ ‫رہت ہے۔‬ ‫زب ن اہل زب ں میں ہے مرگ خ موشی *‬ ‫ی ب ت بز میں روشن ہوئی زب نی شمع‬ ‫موت ق ئ ب لذات‘ خ موشی ک دوسرا ن ہے۔ شمع کے بجھ‬‫ج نے سے س من ظر غ ئ ہوج تے ہیں اور یہی موت ک وصف‬ ‫ہے۔‬‫اندھیراحرکت روک دیت ہے۔موت بھی حرکت کی دشمن ہے۔ شمع‬‫روشن ہے تو مح ل اس سے است دہ کرتی ہے۔ زندگی‘ اخلاقی ‘‬ ‫م شی‘ سم جی اور م شرتی فوائد مہی کرتی ہے۔ زندگی کے‬‫خ تمے سے تم فوائد خت ہوج تے ہیں۔ ب ب کسی بھی عمر میں‬ ‫ہو اس کی پنشن دلچسپی ک ب عث رہتی ہے۔ ب بے کے مرج نے‬ ‫سے ی م شی ف ئدہ خت ہوت ہے۔ لوگوں کے آنسو ب بے کے‬ ‫لئے نہیں پنش سے محرومی سے جڑے ہوتے ہیں۔ غ ل نے‬

‫‪758‬‬ ‫موت ک شمع کے حوال سے بڑا عمدہ امیج پیش کی ہے۔‬ ‫تیرے ہی ج وے ک ہے ی دھوک ک آج تک *‬ ‫بے اختی ر دوڑے ہے گل درق ئے گل‬ ‫ج وے کے سرا کو پھولوں کے یک ب د دیگرے دوڑے چ ے‬ ‫آنے کو غ ل نے تصویری روپ دے کر نمو کے عمل کو پیش‬ ‫کی ہے اور ی س س مس سل اور تواتر سے ج ری ہے۔ م م‬ ‫من ی ہو ک مثبت ‘اس کے وقوع ک کوئی جواز ضرور ہوت ہے۔‬‫غ ل نے ک ئن ت کے تس سل ک بڑا عمدہ جواز پیش کی ہے پھول‬‫ج وے کے لئے دوڑ ے چ ے آرہے ہیں ۔ ک می بی ک سرا انس ن‬ ‫کو دوڑائے چلا ج رہ ہے۔‬ ‫ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نق کے *‬ ‫ہے اک شکن پڑی ہوئی طرف نق میں‬ ‫تیوری ملا حظ ہو سکنے والی چیز ہے لیکن اس کے لئے‬ ‫ضروری ہے ک وہ س منے ہو ۔ نق کے اندر چہرے کے ات ر‬ ‫چڑھ ک اندازہ امک ن سے ب ہر کی چیز ہے۔ غ ل نے نق میں‬ ‫پوشیدہ چہرے کی اس ح لت کو نق کی شکن کے حوال سے‬ ‫اج گر کی ہے۔ تیوری اور نق کی شکن‘ ہ شکل ہیں۔ اسی‬ ‫عنصرنے اس امیج کی تشکیل میں بڑازبردست ک دکھ ی ہے۔‬‫غ ل کے کہنے ک مط ی ہے ک نقل و حرکت سے رویے اور‬

‫‪759‬‬ ‫مزاج ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ اظہ ر ضروری نہیں ‪ ،‬اندازے‬ ‫کے لئے آث رہی ک فی ہوتے ہیں۔ آث ر در حقیقت اظہ ر ہی ک‬ ‫مترادف ہوتے ہیں۔‬ ‫گرتیرے دل میں ہو خی ل وصل میں شو ک زوال *‬ ‫موج محیط آ میں م رے ہے دست و پ ک یوں‬ ‫وصل میسر آج نے کے ب د کی ح لت کو غ ل نے’’موج محیط‬ ‫آ ‘‘سے مم ثل قرار دی ہے۔ وصل میسرآج نے کے ب د شو‬ ‫میں زوال آج ن چ ہیے لیکن ایس ہوت نہیں ب ک بے ت بی و‬ ‫بیقراری میں اض ف ہوت ہے ۔ب لکل اسی طرح جس طرح موجیں‬ ‫پ نی میں رہتے ہوئے بھی ہ تھ پ ؤں م رتی رہتی ہیں۔ منزل‬ ‫دستی ہو ج نے کی صورت میں آدمی ہ تھ پ ؤں توڑ کر بیٹھ‬ ‫نہیں ج ت ب ک نئی منزل ک ت ین کرلیت ہے۔ ہر منزل کے ب د‬ ‫کسی اور منزل ک ت ین فطری تق ض ہے۔ وہ شو ہی کی جسے‬‫زوال آج ئے۔ غ ل نے اس ش ر کے حوال سے انس نی فطرت ک‬ ‫بڑا اہ پہ و اج گر کی ہے۔ اگر بے چینی وبے قراری خت‬ ‫ہوج ئے تو زندگی لام نی ہو کر رہ ج ئے گی۔ جم ل ‪ ،‬جلال اور‬ ‫کم ل ب قی ن رہیں گے اور انس ن کی مثل جوہڑ کے کھڑے پ نی‬ ‫کی سی ہر کر رہ ج ئے گی ۔‬ ‫بھرا ہوا نق میں ہے ان کے ایک ت ر *‬ ‫مرت ہوں میں ک ی ن کسی کی نگ ہ ہو‬

‫‪760‬‬‫غ ل نے نگ ہ کی بڑی عمدہ تجسی پیش کی ہے۔ ’دیکھنے‘‘ کی‬‫مصوری امک ن سے ب ہر ہے۔ غ ل نے اسے نق میں موجود’’‬ ‫ت ر‘‘س قرار دی ہے۔ انس نی فطرت ہے ک وہ محبو کی طرف‬ ‫کسی اور کے دیکھنے کو گوارہ نہیں کرت ۔ اسے شک رہت ہے‬‫ک اس کے محبو کو کسی اور نے کہیں دیکھ ن لی ہو ۔گوی بد‬ ‫گم نی عش ی پھر ع ش ک خ ص رہی ہے ۔تبھی محبو کے‬‫نق میں موجودت ر پر کسی کی نگ ہ ک گم ن کرآہ ہے۔ اس ش ر‬ ‫میں انس نی فطرت کے کئی ایک شیڈ ہیں پہلا بد گم نی ‪ ،‬انس نی‬ ‫ن سی ت ک حص ہے ۔وہ ج د شک ک شک ر ہوج ت ہے۔ دو ۔ وہ‬‫محبو پر کسی قس ک الزا نہیں دھرت ۔ مم ث تیں اس کے سوچ‬ ‫کے زوایوں میں تبدی ی لاتی رہتی ہیں۔ تیسرا۔غیر م مولی اور‬ ‫نم ی ں تبدی ی اسے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‬ ‫گ شن کو تیری صحبت از بسک خوشی آئی ہے *‬ ‫ہر غنچے ک گل ہون ‪ ،‬آغوش کش ئی ہے‬ ‫پسند آنے کے لئے غنچے ک گل ہون کی تمثیل است م ل کی گئی‬ ‫ہے۔ غنچے ک گل ہون ‘ اس امر کی دلیل ہے ک تری صحبت‬ ‫اسے راس آگئی ہے۔‬‫غنچے سے گل تک ک عمل اپنے اندر بے پن ہ ج ز بیت رکھت ہے‬ ‫’’خوشی آن ‘‘ کس طرح ک ہوت ہے اس کی تجسی بڑی مشکل‬ ‫ہے ۔پھر ی کس طرح م ن لی ج ئے ک صحبت خوش آئی ہے۔‬

‫‪761‬‬ ‫زب نی کہ غ ط ہوسکت ہے ی دل رکھنے کے لئے کہ دی گی ہو‬ ‫ی مب لغے سے ک لی گی ہو۔ عم ی اظہ ر کے بغیر یقین نہیں کی‬‫ج سکت ۔ صحبت خوش آن ‪ ،‬غنچے کے گل ہونے سے مم ثل ہے۔‬ ‫کسی سے مل کر چہرہ کھل اٹھن ‪ ،‬آنکھوں میں چمک نمودار‬ ‫ہون ‪ ،‬ہونٹوں پر مسک ن ابھرن خوش آنے کی دلیل ہوتی ہے۔‬ ‫غنچ سمٹ ہوا ہوت ہے جبک گل کی آغوش کش دہ ہوتی ہے۔‬ ‫آغوش کی کش دگی خوش آنے ک ثبوت ہے۔‬ ‫ی طوف ں گ ہ جوش اضطرا ش تنہ ئی *‬ ‫ش ع آفت صبح محشر ت ر بستر ہے‬‫ش تنہ ئی‘‘ کو طوف ن گ ہ کے مم ثل قرار دی گی ہے۔ تنہ ئی ک ’’‬ ‫اضطرا ہر لمح بڑھت چلا ج ت ہے۔ اس میں شدت پیدا ہوتی‬ ‫چ ی ج تی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی شدت کو ت ر صبح قی مت (قی مت‬ ‫کے سورج کی کرن) ک س قرار دی ج رہ ہے۔ ی آج تک کسی‬ ‫کے دیکھنے میں نہیں آئی ت ہ قی مت کے سورج سے مت‬ ‫قصے پڑھنے سننے میں آتے رہتے ہیں۔ غ ل نے ان قصص‬ ‫کے سین ریو میں ش تنہ ئی کے اضطرا کے جوش اور شدت‬ ‫کو جوڑدی ہے۔ پہ ے مصرعے میں ل ظ ’’طوف ن‘‘ است م ل ہوا‬‫ہے۔ طوف ن دیکھی بھ لی چیز ہے۔ ی س کچھ بہ کر ی اڑ کر لے‬ ‫ج ت ہے۔ اسی حوال سے ش تنہ ئی کے اضطرا کی تمثیل‘‬ ‫طوف ن پر فٹ آئی ہے۔ طوف ن ک ل ظ اضطرا کو من س طور‬












































Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook